امریکہ نے اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو سے ایک بار پھر علیحدگی اختیار کر لی۔ امریکی حکومت کا الزام ہے کہ یونیسکو میں اسرائیل کے خلاف جانبداری پائی جاتی ہے اور یہ ادارہ تفریقی سماجی و ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔
یونیسکو کا صدر دفتر پیرس میں ہےتصویر: Alexander Shcherbak/TASS/IMAGO
اشتہار
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو سے علیحدگی کی وجہ ادارے کی جانب سے ''تفریق کرنے والے سماجی و ثقافتی نظریات کو فروغ دینا‘‘ ہے۔
بروس نے کہا کہ یونیسکو کا فیصلہ کہ وہ ’’فلسطین کی ریاست‘‘ کو رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے، امریکی پالیسی کے منافی ہے اور اس سے ادارے میں اسرائیل مخالف بیانیہ کو فروغ ملا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اینا کیلی نے کہا، ''یونیسکو ایسے تقسیم پسند ثقافتی و سماجی مقاصد کی حمایت کرتا ہے جو ان عام فہم پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں جن کے لیے امریکی عوام نے نومبر میں ووٹ دیا۔‘‘
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے یونیسکو کے لیے غیر متزلزل حمایت کا اعلان کیا ہےتصویر: picture-alliance/L.Marin
یونیسکو کا ردِعمل
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے واشنگٹن کے فیصلے پر ''گہرے افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ اس صورتحال کے لیے پہلے سے تیار تھا۔
انہوں نے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا، ''یہ دعوے یونیسکو کی اصل کوششوں کے برخلاف ہیں۔‘‘
اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں یونیسکو کے لیے ''غیر متزلزل حمایت‘‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ کا فیصلہ فرانس کی وابستگی کو کمزور نہیں کرے گا۔
یونیسکو کے اہلکاروں نے کہا کہ امریکی علیحدگی سے ادارے کے کچھ امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں پر محدود اثر پڑے گا، کیونکہ ادارہ اب متنوع مالی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کا صرف 8 فیصد بجٹ ہی امریکہ سے آتا ہے۔
اشتہار
اسرائیل کا ردعمل
اسرائیل نے امریکہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے یونیسکو پر ''مسلسل غلط اور اسرائیل مخالف جانبداری‘‘ کا الزام عائد کیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں امریکہ کی ''اخلاقی حمایت اور قیادت‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’اسرائیل کو نشانہ بنانے اور رکن ممالک کی سیاسی چالوں کا خاتمہ ضروری ہے، چاہے وہ یونیسکو ہو یا اقوام متحدہ کے دیگر پیشہ ور ادارے۔‘‘
دنیا میں تاریخی وثقافتی ورثے کے دلچسپ مقامات
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کو قائم ہوئے پچھتر سال ہوگئے ہیں۔ اس عرصے میں اس ادارے نے ایک سو ستر ممالک کے کوئی ہزار سے زائد مقامات کو تحفظ فاہم کیا ہے۔
تصویر: DW/E. Jahn
ماچُو پیچُو، پیرو
لاطینی امریکی ملک پیرو کا قدیمی کھنڈر ماچُو پیچُو گذرے زمانے کی 'اِنکا‘ تہذیب کا شہر ہے۔ اس کے کھنڈرات تک پہنچنے کے لیے آپ کو پتھروں کی سینکڑوں سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔
تصویر: Lukas Stege/DW
ریگا کا پرانا شہر
لیٹویا کے دارالحکومت ریگا کے قدیمی وسطی حصے کو سن 1997 میں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ریگا کا یہ حصہ یورپ کے دورِسیاہ اور بعد کی جدیدیت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ اس تصویر میں قرونِ وسطیٰ دور کا تعمیراتی شاہکار سینٹ پیٹرز چرچ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Nicole Meißner/DW
تیمقاد، الجزائر
کوہ اؤراس کے دامن میں واقع رومن نوآبادیاتی دور کے تیمقاد کے کھنڈرات پرشکوہ ہیں۔ اس دو ہزار سال پرانے شہر کی بعض عمارتیں آج بھی قدرے بہتر حالت میں ہیں۔ ان میں ایمفی تھیئٹر، فتح کی محراب، آرام گاہیں، گرم پانی میں نہانے والے حوض اور لائبریری شامل ہیں۔
تصویر: DW/A. Termèche
دی ڈولومائیٹس، اٹلی
سیاحوں کے لیے ڈولومائیٹس کے بلند و بالا پہاڑ قدرت کا متاثرکن، منفرد اور حسین شاہکار ہیں۔ اس بڑے اور طاقتور پہاڑ کے سامنے انسان خود کو بہت چھوٹا محسوس کرتا ہے لیکن ساتھ ہے بعض لوگوں کو وہاں جاکر بہت سکون اور آرام کا احساس ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Y. Omsen
وِسمار، جرمنی
بحیرہ بالٹک پر واقع ساحلی شہر وسمار کسی زمانے میں سمندری تجارت کا اہم مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس شہر کے قدیمی گاتھک طرزِ تعمیر کے گرجا گھر اور پرانے مکانات یورپ کے قرون وسطیٰ کے دور کی یاد دلاتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Müller
وادیٴ رم، اردن
صحرائی علاقے میں گرینائٹ کی چٹانوں کی حامل وادی رم کو مقامی لوگ 'وادی القمر‘ بھی کہتے ہیں۔ اس وادی کے مناظر ہالی ووڈ کی مشہور فلم 'دی مارشیئن' میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Hoffmann
وادئ رم، اردن
سورج ڈھلتے اردن کی اس صحرائی وادی کی چٹانوں کا منظر شاندار ہوتا ہے۔ پتھریلے پہاڑوں پر ہزاروں سال پہلے یہاں رہنے والوں کی نقش نگاری کے آثار آج بھی موجود ہیں، جو آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں۔
تصویر: DW/E. Jahn
بحیرہ واڈن، جرمنی
موسم سرما میں شمالی سمندر میں واقع جرمنی کے جزیرے زُولٹ گھومنے جائیں تو یخ ٹھنڈی ہوائوں کے ساتھ ایک سُنسان ساحل آپ کا خیر مقدم کرتا ہے۔ بحیرہ واڈین کی زبردست کھلی جگہ میں آپ اکیلے میں قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Kirchhoff
پہا پور، بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا سے سات گھنٹے کی مسافت پر بُودھ بہار کے کھنڈرات ہیں۔ اس تصویر میں آپ بیس فٹ بلند سرخ مٹی کا اسٹوپا دیکھ سکتے ہیں، جس کے ارد گرد چاولوں کے کھیت ہیں۔ آج بھلے ہی دیکھنے میں یہ کوئی شاندار جگہ نہ لگے لیکن آٹھویں صدی میں یہ اسٹوپا بُودھ مت کے پیروکاروں کے لیے ایک اہم مرکز ہوا کرتا تھا۔
تصویر: E. Sucker
تھنگ ویلیئر، آئس لینڈ
آئس لینڈ کے جنوب مغرب میں واقع یہ ایک نیشنل پارک ہے، جسے یونیسکو نے سن 2004 میں عالمی ورثے قرار دیا۔ اس پارک کا قدرتی حسن پریوں کی داستان کا حصہ لگتا ہے۔ اس جگہ کی تاریخی اہمیت بھی ہے کیونکہ اسی مقام پر یورپ کے جنگجو قبائل وائکنگز نے سن 930 میں اپنا ایک اہم اجلاس منعقد کیا تھا۔
تصویر: DW/E. Yorck von Wartenburg
دیوارِ چین
دیوار چین تک پہنچنے کے لیے قریب سات سو سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ اوپر پہنچیں تو آپ کو وہاں سے ایک سحر انگیز منظر دکھائی دیتا ہے۔ ہزاروں کلو میٹر طویل اس 'عظیم دیوار‘ کو دنیا کا سب سے بڑا تعمیراتی شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/K. Schmidt
کورن وال، انگلینڈ
جنوبی برطانیہ کا علاقہ کورن وال انتہائی خوبصورت خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی چٹانوں والے ساحل پر چہل قدمی کا اپنا لطف ہے۔ یہاں لوگ سمندر کنارے آرام کرنے اور سستانے کے لیے بھی جاتے ہیں گو کہ اکثر اوقات وہاں کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Susan Bonney-Cox
وینس، اٹلی
وینس دنیا میں اپنے نہری نظام، مخصوس سیاہ کشتیوں اور آرٹ کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ رومانوی شہر آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے۔ گزشتہ برس وینس کو شدید سیلاب کا سامنا رہا، جس نے یہاں کی کئی پرانی عمارتوں کو مزید خستہ حالی کردیا۔
تصویر: Christina Deicke
13 تصاویر1 | 13
امریکہ پہلے بھی یونیسکو چھوڑ چکا ہے
یونیسکو طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ایک بین الاقوامی محاذ رہا ہے، جہاں فلسطینی عالمی اداروں اور معاہدوں میں شمولیت کے ذریعے اپنی ریاستی حیثیت تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو اس وقت تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں شامل نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ اسرائیل کے ساتھ ایک مکمل امن معاہدے کے تحت ریاستی درجہ حاصل نہ کر لے۔
امریکہ نے پہلی بار 1980 کی دہائی میں یونیسکو پر سوویت نواز جانبداری کا الزام لگا کر اس سے علیحدگی اختیار کی تھی، لیکن 2003 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں دو سال قبل امریکہ نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی ۔