1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ: چابہار بندرگاہ پر بھارت کے لیے پابندیوں کی چھوٹ واپس

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
19 ستمبر 2025

امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ ایران کی اسٹریٹجک چابہار بندرگاہ پر آپریشنز کے لیے بھارت کو پابندیوں سے متعلق جو چھوٹ دی گئی تھی، اسے منسوخ کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام اس کی ترقی میں دہلی کے کردار کو متاثر کر سکتا ہے۔

چابہار بندر گاہ پر ایک روسی بحری جہاز
نئی دہلی اس بندرگاہ (شاہد بہشتی ٹرمینل، چابہار پورٹ) کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے تیار کر رہا ہے اور اس پابندی کے اس پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیںتصویر: AFP/Iranian Army office

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بھارت کو ایران کی چابہار بندرگاہ کی تعمیر کے لیے نئی دہلی کو پابندیوں سے متعلق جو رعایات دی گئی تھیں، انہیں وہ واپس لے رہی ہے۔

ایران کی چابہار بندرگاہ دفاعی نکتہ نظر سے اہم ہے اور جب چین کی جانب سے گوادر کی بندرگاہ ڈیولپ کرنے کا عمل شروع ہوا تو بھارت نے اسی تناظر میں ایران کی اس بندرگاہ کو لے کر کام شروع کیا تھا۔

چونکہ ایران کے حوالے سے امریکہ نے بہت سی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اس لیے مودی کی درخواست پر سن 2018  میں ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ نے اس بندرگاہ کے آپریشنز کو پابندیوں سے مستثنٰی قرار دیا تھا، جسے اب واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔  

یہ پابندیاں آج سے تقریباً 10 دن بعد یعنی 29 ستمبر سے نافذ العمل ہو جائیں گی اور کہا جا رہا ہے کہ تہران کے خلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ" بنانے کے لیے واشنگٹن نے یہ فیصلہ کیا ہے۔

امریکہ نے کیا کہا؟

امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان تھامس پگوٹ نے ایک بیان میں کہا، "ایرانی حکومت کو الگ تھلگ کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے مطابق، وزیر خارجہ نے 2018 میں ایران فریڈم اینڈ کاؤنٹر پرولیفریشن ایکٹ کے تحت جاری کردہ پابندیوں کی استثنٰی کو منسوخ کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ، 29 ستمبر 2025 سے نافذ العمل ہو گا۔"

منسوخی کے فیصلے کے نفاذ کے بعد وہ تمام افراد جو چابہار بندرگاہ کو چلاتے ہیں یا دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہیں، وہ سب کے سب امریکی پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔

 چابہار ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں واقع ایک گہرے پانی کی بندرگاہ ہے، جو کھلے سمندر میں واقع ہے اور بڑے کارگو جہازوں کے لیے آسان اور محفوظ رسائی فراہم کرتی ہےتصویر: ATTA KENARE/AFP/Getty Images

بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکا

ماہرین کے مطابق گرچہ اس اقدام کے ذریعے ایران کو نشانہ بنانے کی بات کہی جا رہی ہے، تاہم اس کے بھارت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ نئی دہلی اس بندرگاہ (شاہد بہشتی ٹرمینل، چابہار پورٹ) کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے تیار کر رہا ہے۔

بھارتی میڈیا نے اس حوالے سے ایسی خبریں شائع کی ہیں کہ چین کی جانب سے گوادر بندرگاہ کو جس طرح تعمیر کیا ہے، اس تناظر میں یہ فیصلہ چابہار کو ترقی دینے کے بھارتی منصوبوں کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔

استثنیٰ کی منسوخی بھارت کو ایک مشکل مقام پر ڈالتی ہے۔ 13 مئی 2024 کو، نئی دہلی نے اپنے پہلے طویل مدتی ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت ایران کی بندرگاہ اور میری ٹائم آرگنائزیشن کے ساتھ شراکت میں چابہار کو چلانے کے لیے 10 سال کی ڈيل کی گئی تھی۔

بھارت کے لیے چابہار صرف ایک تجارتی مرکز نہیں بلکہ اسٹریٹیجک نکتہ نظر سے بہت اہم ہے۔ نئی دہلی نے سب سے پہلے سن 2003 میں چابہار کو ترقی دینے کی تجویز پیش کی تھی کیونکہ یہ پاکستان پر بھروسہ کیے بغیر افغانستان اور وسطی ایشیا کو راستہ فراہم کرتی ہے اور یہ بین الاقوامی شمال-جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور سے بھی مربوط ہے، جو بھارت کو روس اور یورپ سے ملاتا ہے۔

بھارت اس بندرگاہ کو پہلے ہی افغانستان کو گندم کی امداد اور دیگر ضروری سامان بھیجنے کے لیے استعمال کر چکا ہے۔

بھارت پاکستان سے گزرنے والے زمینی راستے سے بچنے کے لیے چابہار کی بندر کے ذریعے افغانستان کو ساز و سامان فراہم کرتا ہےتصویر: ONDS/Rohollah Navid

امریکہ نے 2018 میں چابہار بندرگاہ کے منصوبے کو پابندیوں سے مستثنٰی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسے افغانستان کے لیے اچھی کھیپ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دفاعی نکتہ نظر سے اہم ایرانی بندرگاہ

 چابہار ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں واقع ایک گہرے پانی کی بندرگاہ ہے۔ یہ بھارت کے لیے سب سے قریبی ایرانی بندرگاہ ہے اور کھلے سمندر میں واقع ہے، جو بڑے کارگو جہازوں کے لیے آسان اور محفوظ رسائی فراہم کرتی ہے۔

مئی 2016 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ تہران کے دوران بین الاقوامی ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کوریڈور (چابہار معاہدہ) کے قیام کے لیے بھارت، ایران اور افغانستان نے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

بھارت نے اب تک 25 ملین امریکی ڈالر مالیت کی چھ موبائل ہاربر کرینیں اور دیگر سامان چابہار کو فراہم کیا ہے۔ بھارتی کمپنی، انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹڈ (آئی پی جی ایل) نے اپنی ایک ذیلی کمپنی انڈیا پورٹس گلوبل چابہار فری زون کے ذریعے، 24 دسمبر 2018 میں چابہار بندرگاہ کے آپریشنز کو سنبھالا تھا۔

ادارت: جاوید اختر

ایرانی بندرگاہ پر دھماکہ، حقائق کیا ہیں؟

01:47

This browser does not support the video element.

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں