امریکہ: ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ پر ایف بی آئی کے چھاپے
9 اگست 2022
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ فلوریڈا کے پام بیچ میں واقع ان کے مار-اے-لاگو اسٹیٹ پر تفتیشی ایجنسی ایف بی آئی کے ایجنٹوں کے ایک بڑے گروپ نے چھاپہ مارا اور اس کو اپنے قبضے میں رکھا۔
اشتہار
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کی شام کو بتایا کہ وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے فلوریڈا میں ان کے شاندار رہائشی کمپلیکس مار-اے-لاگو اسٹیٹ پر غیر اعلانیہ اچانک چھاپے کی کارروائی کی۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''متعلقہ سرکاری اداروں کے ساتھ کام کرنے اور تعاون کرنے کے بعد بھی، میرے گھر پر یہ غیر اعلانیہ چھاپہ ضروری یا مناسب نہیں تھا۔'' ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے چھاپے کے دوران ان کی ایک محفوظ الماری کو زبردستی کھولا۔
سابق امریکی صدر حالیہ مہینوں میں اس بات کے اشارے کرتے رہے ہیں کہ وہ آئندہ صدارتی انتخابات میں پھر بطور امیدوار اترنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دوسری جانب امریکی محکمہ انصاف ان کے خلاف ان الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ ان کے عہدہ صدارت کے اختتام کے بعد بعض خفیہ ریکارڈ کو ان کی نجی رہائش گاہ مار-اے-لاگو لے جایا گیا تھا۔
ایک وفاقی قانون، جسے امریکی صدارتی ریکارڈز ایکٹ کہا جاتا ہے، صدر کے تحت حکومتی فرائض سے متعلق میموز، خطوط، نوٹس، ای میلز اور فیکس جیسے دیگر تمام تحریری مواصلات کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پیر کے روز کے چھاپوں کا تعلق بھی انہیں دستاویزات کی تشویش کے بارے میں تھی، جو صدر ٹرمپ عہدہ صدارت کے بعد اپنے ساتھ وائٹ ہاؤس سے فلوریڈا کے اپنے نجی پر تعیش گھر لے کر آ گئے تھے۔ معروف اخبار نیویارک ٹائمز اور پھر بعد میں خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس تحقیقات سے واقف نامعلوم افراد کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی اطلاع دی تھی۔
ادھر ٹرمپ نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ چھاپے کی یہ کارروائی ''استغاثہ کی بدانتظامی، انصاف کے نظام کو ہتھیار بنانے، اور بنیاد پرست بائیں بازو کے ان ڈیموکریٹس کا ایک حملہ ہے، جو بہت شدت سے نہیں چاہتے کہ میں 2024 میں صدر کا انتخاب لڑوں، خاص طور پر حالیہ پول کے مد نظر۔ اور اسی طرح آنے والے وسط مدتی انتخابات میں بھی وہ ریپبلکن اور کنزرویٹو کو روکنے کے لیے کچھ بھی کریں گے۔''
تحقیقات میں شدت
ٹرمپ کے خلاف دستاویزات سے متعلق اس تفتیش کے علاوہ چھ جنوری کو امریکی کیپیٹل ہل کی عمارت پر حملے اور اس کا محاصرہ کرنے کی بھی تحقیقات تیز ہوتی جا رہی ہیں۔
لیکن ایف بی آئی نے حالیہ چھاپے کی کارروائی سے متعلق کسی بھی طرح کی ایسی معلومات فراہم نہیں کیں جس سے یہ واضح ہوتا ہو کہ انہیں اس حوالے سے کیا اطلاعات ملی تھیں اور یہ کہ چھاپہ کس تفتیش کا حصہ تھی۔
اس سے قبل گزشتہ فروری میں امریکی نیشنل آرکائیوز اور ریکارڈز رکھنے والی انتظامیہ نے امریکی کانگریس کو مطلع کیا تھا کہ اس نے مار-اے-لاگو سے وائٹ ہاؤس کی دستاویزات کے وہ تقریباً 15 بکس دوبارہ حاصل کر لیے ہیں، جن میں سے بعض میں خفیہ مواد بھی موجود تھا۔ اس کے بعد ٹرمپ کی رہائش گاہ پر یہ پہلا چھاپہ تھا۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔