1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امریکی بے عملی‘: چین کے پاس عرب دنیا میں قدم جمانے کا موقع

29 مئی 2024

عرب خطے میں چین کے تعلقات تجارت سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں اور وہ بطور ’سافٹ پاور‘ اپنے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ متعدد عرب لیڈر چین میں ہیں، جہاں وہ فلسطین تنازعے پر بھی ایک ’مشترکہ مؤقف‘ پیش کریں گے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور چینی صدر شی جن پنگ
عرب خطے میں چین کے تعلقات تجارت سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں اور وہ بطور ’سافٹ پاور‘ اپنے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ کر رہا ہےتصویر: Royal Court of Saudi Arabia/AA/picture alliance

دارالحکومت بیجنگ میں ''چین۔ عرب ممالک کوآپریشن فورم‘‘ منعقد ہو رہا ہے، جس کا مقصد بیجنگ حکومت اور عرب ممالک کے مابین تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ چین نے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو چیلنج کرتے ہوئے حالیہ برسوں  کے دوران عرب ریاستوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے گزشتہ برس ایران اور اس کے دیرینہ حریف سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے راستے بھی ہموار کیے تھے۔

چین تاریخی طور پر فلسطینی کاز سے ہمدردی اور اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ بیجنگ حکومت نے گزشتہ ماہ حریف فلسطینی گروپوں حماس اور الفتح کی میزبانی  بھی کی تھی، جس میں ''فلسطینی گروپوں کے درمیان مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے جامع اور صاف بات چیت‘‘ کی گئی تھی۔

کیا سعودی عرب اپنی سیاسی جہت بدل رہا ہے؟

چین میں ہونے والے عرب فورم میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کے ساتھ ساتھ دیگر علاقائی رہنما اور سفارت کار بھی شرکت کر رہے ہیں۔

مصری صدر سمیت متعدد عرب رہنما چین میں جمع کیوں ہو رہے ہیں؟

بیجنگ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق صدر شی جن پنگ جمعرات 30 مئی کو اس فورم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کریں گے، جس کا مقصد چین اور عرب ریاستوں کے درمیان  ایک ''مشترکہ اتفاق رائے‘‘ قائم کرنا ہے۔

عرب خطے میں چین کے تعلقات تجارت سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں اور وہ بطور ’سافٹ پاور‘ اپنے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ کر رہا ہےتصویر: Xie Huanchi/Xinhua/picture alliance

ایجنڈے میں سرفہرست اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا موضوع ہو گا۔ اس جنگ کے خاتمے کے لیے چین کے صدر نے ایک ''بین الاقوامی امن کانفرنس‘‘ بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

چیتھم ہاؤس کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پروگرام کے ایک ایسوسی ایٹ فیلو احمد ابودوح کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''چین مشرق وسطیٰ میں امریکی بے عملی کو دیکھ کر اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں ترتیب دے رہا ہے۔ وہ اس تنازعے میں اپنی ساکھ اور عرب دنیا میں کھڑا ہونے کا ایک اسٹریٹجک موقع دیکھ رہا ہے۔‘‘

کیا چین مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کے بدلے میں خطے میں امریکی ساکھ اور اس کے اثرو رسوخ کو کمزور بنانے کے چینی مقصد کو تقویت ملتی ہے۔‘‘  احمد ابودوح کا مزید کہنا تھا، ''جنگ جتنی طویل ہو گی، چین کے لیے اس مقصد کو حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہو گا۔‘‘

منگل کے روز چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے بیجنگ میں یمن اور سوڈان کے اپنے ہم منصبوں سے بھی ملاقات کی اور کہا کہ وہ عرب دنیا کے ساتھ ''یکجہتی اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانے‘‘ کی امید رکھتے ہیں۔

انہوں نے اپنے یمنی ہم منصب شائع محسن الزندانی کے ساتھ حماس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی جانب سے بحیرہ احمر کی جہاز رانی پر خلل ڈالنے والے حملوں کے بارے میں بھی چین کے خدشات کا اظہار کیا۔

چین کی سرکاری نیوز ایجنسی میں جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، ''چین سویلین جہازوں کو ہراساں کرنے کے خاتمے اور بحیرہ احمر میں آبی گزرگاہوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتا ہے۔‘‘

ا ا/ا ب ا (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں