امریکہ کے عراق میں بھی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پر حملے
24 جنوری 2024
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کی افواج نے عراق میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے زیر استعمال تین تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ یہ حملے عراق اور شام میں امریکی فوجیوں کے خلاف ہونے والے حملوں کا جواب ہیں۔
اشتہار
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ امریکی فوجیوں پر ڈرون اور میزائل سے ہونے والے حملوں کے جواب میں واشنگٹن نے منگل کے روز عراق میں ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں سے منسلک تین تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
چند روز قبل ہی امریکی افواج نے اپنے ایک حملے میں عراق میں موجود ایران نواز ملیشیا گروپ کے ایک رہنما کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد یہ تازہ کارروائی کی گئی ہے۔ اس پہلے والے حملے کی وجہ سے بغداد میں زبردست غم و غصہ پھیل گیا تھا، جس کی وجہ سے ایک بار پھر سے عراق سے امریکی فوجی اہلکاروں کو ہٹانے کے لیے مطالبات شروع ہو گئے۔
لائیڈ آسٹن نے ایک بیان میں کہا، ''صدر جو بائیڈن کی ہدایت پر، امریکی فوجی دستوں نے عراق میں ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ ملیشیا گروپ اور ایران سے وابستہ دیگر گروپوں کے زیر استعمال تین تنصیبات پر اہم اور متناسب حملے کیے گئے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ تیر بہ ہدف اور درست حملے عراق اور شام میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے حملوں کا براہ راست جواب ہیں۔''
امریکی حکام نے بتایا کہ امریکی میزائلوں نے شام کی سرحد کے قریب مغربی عراق میں واقع دو اڈوں کو نشانہ بنایا۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے امریکی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان حملوں میں دو عسکریت پسند ہلاک اور چار دیگر زخمی ہوئے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ، جو کہ مشرق وسطیٰ میں کارروائیاں کرنے کی ذمہ دار ہے، کا کہنا ہے کہ حملوں میں کتائب حزب اللہ کے ''ہیڈ کوارٹر، اسٹوریج اور راکٹ و میزائل کے لیے تربیتی مقامات'' اور ڈرون کی صلاحیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ادھر کتائب حزب اللہ کے فوجی ترجمان جعفر الحسینی نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ گروپ مشرقی وسطی میں ہونے والی فوجی کارروائیوں کے خاتمے تک ''دشمنوں کے ٹھکانوں '' کو نشانہ بناتا رہے گا۔ اس نے اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
عراق اور شام میں امریکہ کے فوجی اڈے ہیں، جو گزشتہ اکتوبر سے اب تک 150 سے زیادہ بار نشانہ بن چکے ہیں۔ جواباً امریکہ نے بھی ان کے ٹھکانوں پر متعدد حملے کیے ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں امریکی حملے میں بغداد میں ایک ایران نواز کمانڈر مارا گیا تھا، جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی تھی اور عراق نے امریکہ سے فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے امریکی فوج کو عراق سے باہر نکالنے کے کسی منصوبے کے بارے میں باضابطہ طور پر مطلع نہیں کیا گیا ہے۔
عراق اور شام میں جوابی حملوں کے ساتھ ہی امریکہ نے، بحیرہ احمر اور خلیج عدن سے گزرنے والے تجارتی جہازوں کے خلاف حوثی عسکریت پسندوں کے حملوں کے جواب میں، یمن میں بھی متعدد حملے کیے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
ایران عراق جنگ، چالیس برس بیت گئے
ایران اور عراق کے مابین ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ کا خونریز ترین تنازعہ تھا۔ آٹھ سالہ اس طویل جنگ میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس نے خطے میں فرقہ ورانہ تقسیم میں بھی اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
علاقائی تنازعہ
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
تصویر: defapress
الجزائر معاہدہ
اس جنگ سے پانچ برس قبل سن 1975 میں اس وقت کے نائب صدر صدام حسین اور ایران کے شاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم بغداد حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے آبنائے ہرمز میں واقع تین جزائر پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ ان جزائر پر ایران اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی اپنا حق جتاتے تھے۔
تصویر: Gemeinfrei
اہم آبی ذریعہ
سترہ ستمبر سن 1980 کو عراقی حکومت نے الجزائر معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سو کلو میٹر طویل اہم ایشائی دریا شط العرب پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ گلف کا یہ اہم دریا دجلہ اور فرات سے مل کر بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani
شہروں اور بندگارہوں پر بمباری
عراقی صدر صدام حسین نے ایرانی ہوائی اڈوں پر بمباری کی، جن میں تہران کا ایئر پورٹ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی عراقی فورسز نے ایرانی فوجی تنصیبات اور آئل ریفائنریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں عراقی فورسز کو مزاحمت نہیں ملی اور اس نے قصر شیریں اور مہران سمیت ایران کی جنوب مشرقی پورٹ خرمشھر پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شط العرب سمندر سے جا ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
مشترکہ دشمن
اس جنگ میں گلف ممالک نے عراق کا ساتھ دیا۔ بالخصوص سعودی عرب اور کویت کو ڈر تھا کہ ایرانی اسلامی انقلاب مشرق وسطیٰ کے تمام شیعہ اکثریتی علاقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک بھی عراق کے ساتھ تھے اور انہوں نے صدام حسین کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone
ایران فورسز کی جوابی کارروائی
ایرانی فورسز کی طرف سے جوابی حملہ عراق کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اس کارروائی میں ایرانی فوج نے خرمشھر پورٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ تب عراق نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ تاہم ایران نے جنگ بندی تسلیم نہ کی اور عراقی شہروں پر بمباری شروع کر دی۔ اپریل سن 1984 دونوں ممالک کی افواج نے شہروں پر حملے کیے۔ یوں دونوں ممالک کے تیس شہر شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
اس جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ سن 1984میں ایران نے یہ الزام عائد کیا، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ سن 1988 میں بھی عراقی فورسز نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جون 1987 میں عراق نے ایرانی شہر سردشت میں زہریلی گیس سے حملہ کیا جبکہ مارچ 1988 میں کرد علاقے میں واقع حلبجة میں عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
تصویر: Fred Ernst/AP/picture-alliance
فائر بندی
اٹھارہ جولائی 1988 کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کردہ فائربندی کی تجویز قبول کی۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی درست تعداد کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے چھ لاکھ افراد اس تنازعے کے سبب ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک نے بیس اگست سن 1988 کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Sassan Moayedi
نیا باب
سن 2003 میں جب امریکی فوج نے عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ تب سے ایران اور عراق کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و سماجی معاملات میں بھی باہمی تعلقات بہتر بنا چکے ہیں۔