1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ کے لیے جنگی رسد کی فراہمی چھ گنا مہنگی

20 جنوری 2012

پاکستان کی جانب سے نیٹو کے سپلائی رُوٹ کی بندش کے باعث امریکہ کو افغانستان میں تعینات فوجیوں کو رسد کی فراہمی چھ گنا مہنگی پڑ رہی ہے۔

تصویر: dapd

یہ بات خبر رساں ادارے اے پی نے امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کے اعدادوشمار کے حوالے سے بتائی ہے۔ اب امریکہ افغانستان میں رسد کی فراہمی کے لیے ماہانہ 104ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ یہ رقم پاکستان کے راستے سپلائی پر اٹھنے والے اخراجات سے 87 ملین ڈالر زیادہ ہے۔

پاکستان نے نیٹو کی جانب سے گزشتہ برس چھبیس نومبر کے حملے کے بعد اس کا سپلائی رُوٹ بند کر دیا تھا۔ فوجی چوکیوں پر ہونے والے اس حملے میں پاکستان کے چوبیس فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

ان حملوں کے باعث پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی مزید کشیدہ ہوئے، جن میں دراصل رواں برس مئی میں دہشت گرد گروہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکی فورسز کے ایک خفیہ آپریشن کے دوران پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد پہلے سے ہی تلخی چلی آ رہی تھی۔

پاکستان نے سپلائی رُوٹ ابھی تک بند کر رکھا ہے۔ اے پی کے مطابق یہ واضح نہیں کہ یہ رُوٹ کب بحال ہو گا۔

پینٹا گون نے متبادل راستوں سے رسد کی فراہمی پر اٹھنے والے ماہانہ اخراجات کے بارے میں اے پی کو جمعرات کو بتایا ہے۔ یوں امریکی حکام نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے رُوٹ کی بندش کے بعد سپلائی پر زیادہ رقوم خرچ کرنی پڑ رہی ہیں جبکہ رسد کی فراہمی میں بھی دیر ہو رہی ہے، لیکن انہوں نے اب تک اس کے مجموعی اخراجات کے بارے میں نہیں بتایا ہے۔

افغانستان میں رسد کی فراہمی کے لیے پاکستان نیٹو کا اہم سپلائی رُوٹ ہےتصویر: dapd

واشنگٹن حکام کا کہنا ہے کہ نئے اخراجات پر رسد کی فراہمی کا سلسلہ کچھ عرصے تک جاری رہے گا۔ اس سے قبل امریکہ ایک تہائی جنگی سامان افغانستان تک پہنچانے کے لیے پاکستانی راستوں پر انحصار کر رہا تھا۔

امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد واشنگٹن انتظامیہ پاکستان کو بیس ارب ڈالر کی عسکری اور سویلین امداد دے چکی ہے۔ لیکن گزشتہ برس دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکام اپنے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی بھی شکایت کرتے ہیں۔

رپورٹ: ندیم گِل / اے پی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں