امریکی صدرٹرمپ نے کانگریس سے اپنے سالانہ خطاب میں ملکی شہریوں سے کہا کہ وہ اپنے اندر اتحاد اور اتفاق پیدا کریں۔ انہوں نے انتقام اور مزاحمت کے رویوں کو موقوف کر کے تعاون اور مشترکہ بھلائی کو اپنانے کو بھی اہم قرار دیا۔
اشتہار
کانگریس کے اراکین نے براہ راست اور لاکھوں امریکی شہریوں نے ٹیلی وژن پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سالانہ خطاب سنا۔ اپنے اسٹیٹ آف دا یونین خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بدلے، انتقام اور اعتراض کی سیاست کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے اور اِن کی جگہ پر بے پناہ تعاون، سمجھوتے اور مشترکہ بھلائی کو اپنے اندر پیدا کرنا اہم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ترقی کے لیے آگے بڑھنے یا جمودی کیفیت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔
اسی طرح اپنی تقریر میں ٹرمپ نے اس امرکی طرف بھی توجہ دلائی کہ مثبت نتائج بہتر ہیں یا مزاحمتی عمل، بے پناہ ترقی یا لایعنی تباہی میں سے بھی بہتر کو اپنانا وقت کا تقاضا ہے۔ امریکی صدر نے جب اپنی تقریر میں ان عوامل کا پرزور انداز میں تذکرہ کیا تو اُن کے حمایتی اراکین کانگریس پرمسرت انداز میں بار بار ڈیسک بھی بجاتے رہے۔
کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی معاملات میں زور آور پالیسی اپنانے کا بھی دفاع کیا۔ انہوں عالمی سطح پر سفارت کاری میں ذاتی پہل کاری کے تناظر میں شمالی کوریا کے لیڈر چیرمین کم جونگ اُن کے ساتھ رواں مہینے کے دوران ایک اور ملاقات کرنے کا بھی اعلان کیا۔ امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کے درمیان ملاقات ستائیس اور اٹھائیس فروری کو ویت نام میں ہو گی۔
اس تقریر کے دوران جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پسندیدہ موضوع یعنی میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرانے پر گفتگو شروع کی، تو ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین کے چہروں سے بےچینی عیاں ہونے لگی۔ ٹرمپ کے مطابق دیوار کی تعمیر حقیقت میں غیرقانونی مہاجرین کے امریکا میں داخل ہونے کے سلسلے کو روکے گی۔ تقریر کے اس مقام پر ٹرمپ نے زور دے کر کہا کہ وہ یہ دیوار تعمیر کر کے رہیں گے اور اس موقع پر انہیں ری پبلکن پارٹی کے اراکین کی جانب سے زور دار پذیرائی حاصل ہوئی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسٹیٹ آف دا یونین خطاب میں اپنی دو سالہ صدارت کے دوران تقسیم اور جوڑ توڑ کی سیاست کو ختم کرتے ہوئے ایک غیر جانبدار قومی لیڈر کا روپ دھارنے کی کوشش کی ہے۔ تجزیہ کاروں نے صدر ٹرمپ کے اِس انداز پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ وقت بتائے گا کہ وہ خود اِن پر کس حد تک عمل کرتے ہیں۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔