امریکی اتحادی شام کا جنوب مغربی حصہ خالی کرتے ہوئے
20 جولائی 2018
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ حکومتی فورسز اور باغیوں کے درمیان ڈیل کے تناظر میں شام کے جنوب مغربی حصے سے امریکی حمایت یافتہ شامی شہری دفاع کے کارکنان اور ان کے اہل خانہ کے انخلا کا عمل شروع ہونے کو ہے۔
اشتہار
شام کے جنوب مغربی حصے میں روس نے باغیوں کو ایک ڈیل پر آمادہ کیا تھا، جس کے تحت انہیں زیرقبضہ علاقہ شام کی حکومتی فورسز کے سپرد کر دینے کے عوض بہ حفاطت انخلا کا موقع دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا اس علاقے میں موجود ’وائٹ ہیلمٹ‘ کارکنان کو ٹرانزٹ کیمپوں میں منتقل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے بعد انہیں شام سے باہر دیگر ممالک میں منتقل کر دیا جائے گا، جن میں برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ اور ممکنہ طور پر کینیڈا شامل ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی سرحد کے قریب گولان کے پہاڑی سلسلے میں واقع قنطیرہ سے شہری دفاع کے اس عملے کو بہ حفاظت نکالنے کا کام جلد ہی شروع ہو جائے گا۔ یہ بات اہم ہے کہ وائٹ ہیلمٹس کو اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے، تاہم شامی حکومت ان کے بارے میں سخت موقف کی حامل ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان افراد کے انخلا سے متعلق گفت گو گزشتہ ہفتے برسلز میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں بھی کی گئی۔
قنطیرہ میں وائٹ ہیلمٹ سے وابستہ ایک رضاکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا، ’’ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہ میری زندگی کا بدترین دن ہے۔ مجھے امید ہے کہ مجھے ریسکیو کر لیا جائے گا، اس سے قبل کے بہت دیر ہو جائے۔‘‘
بے گھر افراد کا گاؤں
اسکاٹ لینڈ میں بے گھر افراد کی مدد کرنے کے لیے نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔ ان میں ایک ’سوشل بائٹ ولیج‘ نامی منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس میں لکڑی کے گھران افراد کے لیے بنائے گئے ہیں، جن کے پاس کوئی مستقل رہائش نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
بالکل ایک تعطیلاتی گاؤں کی طرح
یہ ’سوشل بائٹ ولیج‘ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہاں بے گھر افراد کی مدد کی جا رہی ہے۔ اس منصوبے میں تعاون فراہم کرنے والے کھانے پینے کی اشیاء پہلے ہی مہیا کر دیتے ہیں، جنہیں بعد میں یہاں رہنے والے بے گھر افراد میں بانٹ دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
چھوٹا اور صاف ستھرا
’سوشل بائٹ ولیج‘ کا مقصد صرف یہ نہیں کہ بے گھر افراد کوصرف کھانا پینا فراہم کیا جائے بلکہ ایک مقصد انہیں چھت مہیا کرنا بھی ہے۔ اس گاؤں میں بیس افراد رہ رہے ہیں۔ یہ گھر چھوٹے اور انتہائی پائیدار ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
تمام سہولیات میسر
ان چھوٹے گھروں میں ایک ہی کمرہ ڈرائنگ اور ڈائننگ روم ہے۔ اس میں ایک چھوٹا سے باورچی خانہ بھی ہے۔ اسی طرح دوسرے کمرے میں غسل خانہ ہے۔ یہ بہت پر تعیش تو نہیں مگر سڑکوں پر راتیں بسر کرنے سے بہت بہتر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
لکڑی کا استعمال
یہ تمام گھر لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔ لکڑی کے ساتھ ساتھ پچیس سینٹی میٹر موٹائی والی انسولیشن بھی لگائی گئی ہے تاکہ سردی سے بچا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
گرم اور آرام دہ
ان گھروں میں خواب گاہ بہت زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔ اس کمرے کو کم جگہ استعمال کرتے انتہائی آرام دہ بنایا گیا ہے۔ بے گھر افراد طویل عرصے تک یہاں قیام نہیں کر سکتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
سویٹ ہوم
بے گھر افراد کو رہنے میں جتنا بھی مزہ آ رہا ہو، اٹھارہ ماہ سے زیادہ یہاں کوئی قیام نہیں کر سکتا۔ اس دوران ’سوشل بائٹ ولیج‘ کے کارکن ان بے گھر افراد کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے قابل ہو سکیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
اپنی مدد آپ
’سوشل بائٹ ولیج‘ کے کارکن ان کو بھی تعاون فراہم کرتے ہیں، جو ماضی میں بے گھر افراد کے اس گاؤں کا حصہ رہ چکے ہوں۔ انہیں روزگار کی تلاش اور روز مرہ زندگی کے حوالے سے اہم معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والے دونوں افراد ماضی میں بے گھر تھے اور اب ’سوشل بائٹ ولیج‘ منصوبے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
بے گھر ہونے کے خلاف جنگ
جوش لٹل جون بے گھر ہونے کی حالت کے خاتمے کے لیے جنگ کا اعلان کر چکے ہیں۔ وہ اس منصوبے کے شریک بانی بھی ہیں۔ شاید یہ منصوبہ اسکاٹ لینڈ کے دیگر حصوں کے لیے بھی ایک مثال بن جائے یا پھر دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کے منصوبے شروع کر دیے جائیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
8 تصاویر1 | 8
واضح رہے کہ قنطیرہ سمیت متعدد علاقوں سے باغی نکل رہے ہیں اور یہ علاقے جلد ہی مکمل طور پر شامی فورسز کے قبضے میں چلے جائیں گے۔ حالیہ کچھ عرصے میں شامی فورسز نے ملک کے جنوب میں درعا سمیت متعدد مقامات پر بڑی عسکری کارروائیاں کی ہیں۔ درعا شہر اور نواح کا قریب نوے فیصد علاقہ اب شامی فورسز کے قبضے میں ہے۔ چند روز قبل شامی فورسز نے درعا شہر کے مرکز میں ٹھیک اس مقام پر ملکی پرچم لہرایا تھا، جہاں سن 2011 میں پہلی بار عوام نے شامی صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ درعا ہی وہ پہلا مقام تھا، جہاں حکومت مخالف مظاہروں کی ابتدا ہوئی تھی۔