1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی استثنیٰ ختم ہونے کے بعد یورپی یونین کا کیا ہو گا؟

29 اپریل 2018

امریکا کی جانب سے اضافی درآمدی ڈیوٹی کے معاملے میں یورپی یونین کو دیے جانے والے استثنیٰ کی مدت ختم ہونے والی ہے۔ یورپی یونین میں اس حوالے سے خوف بھی پایا جاتا ہے اور یورپی کمیشن ممکنہ رد عمل کے لیے تیار بھی ہے۔

Symbold Handelskrieg USA EU
تصویر: Imago/Ralph Peters

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ میں فولاد اور اسٹیل کی مصنوعات پر اضافی ڈیوٹی کے معاملے یورپی یونین کے لیے ایک ماہ کے استثنیٰ کا اعلان کیا تھا اور یہ مدت یکم مئی کو ختم ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں تجارتی امورکی یورپی کمشنر سیسیلیا مالم سٹروم نے آج اتوار کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ یورپی کمیشن تیاری کر رہا ہے کہ ممنکہ امریکی اقدام کا کس طرح سے جواب دیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں مذاکرات اوّلین ترجیح ہیں۔ مالم سٹروم کے بقول اگر یورپی یونین اور امریکا کے مابین اضافی محصولات کے معاملے کا غیر مشروط اور دیرپا حل تلاش نہ کیا جا سکا تو یورپی یونین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آئے گا۔

تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul

ادلے کا بدلہ: چین نے بھی جوابی ٹیکس لگا دیے

تجارتی جنگ کی امریکی دھمکی، میرکل کا ’ٹریڈ سرپلس‘ کا دفاع

چین اور امریکا کے مابین تجارتی کشیدگی میں کمی کے اشارے

 ذرائع نے بتایا کہ یورپی یونین کی جانب سے جواب آنے کی صورت میں امریکی وہسکی، موٹر سائیکلز اور جینز کی یورپی یونین میں درآمدات خاص طور پر متاثر ہوں گی۔ امریکی صدر ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ درآمدات اور برآمدات میں موجود عدم توازن کو ختم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس طرح امریکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ٹرمپ کے بقول، ’’یورپی یونین کے ساتھ تجارتی خسارہ 151 ارب ڈالر بنتا ہے۔‘‘

یورپی یونین اور امریکا کے مابین تجارتی تنازعے کے حل کی خاطر یورپی کمیشن اپنی کوششوں میں لگا ہوا ہے تاکہ یکم مئی سے قبل ہی حالات کو مزید کشیدہ ہونے سے بچا لیا جائے۔ یورپی کمیشن کے ایک اہلکار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ فریقین کے بدستور آپس میں رابطے جاری ہیں۔ امریکا نے ابھی حال ہی میں اپنے ہاں فولاد کی مصنوعات کی درآمد پر 25 فیصد جبکہ ایلومینیم مصنوعات کی درآمد پر 10 فیصد ٹیکس نافذ کیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں