1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی اسلحہ اب طالبان کے پاس

15 اگست 2021

حالیہ ہفتوں کے دوران ملک کے زیادہ تر حصوں میں افغان فورسز نے بغیر کسی مزاحمت کے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ان میں سے زیادہ تر امریکی ہتھیار تھے جو افغان سکیورٹی فورسز کو طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے فراہم کیے گئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی اسلحہ ان کے ہاتھ لگنے سے ان عسکریت پسندوں کی طاقت میں مزید اضافہ ہو گا۔تصویر: Abdullah Sahil/AP/picture alliance

امریکا نے حالیہ برسوں کے دوران طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کو جدید ترین اسلحے کی فراہمی اور تربیت پر کئی بلین ڈالرز خرچ کیے۔ افغانستان کے زیادہ تر حصوں میں حکومتی فورسز کی طرف سے لڑے بغیر  طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے کے سبب یہ امریکی ہتھیار اور اسلحہ اب طالبان کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران افغان سکیورٹی فورسز کے ہزارہا اہلکاروں نے طالبان کے آگے ہتھار ڈالے۔

طالبان کے آن لائن نیٹ ورکس پر ایسی ویڈیوز کی بھرمار ہے جن میں طالبان جنگجوؤں کو امریکی اسلحے پر قبضے میں لیتے، قبضہ شدہ گاڑیوں پر گشت کرتے یا پھر ملٹری ہیلی کاپٹرز کے ساتھ پوز بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ملک کے شمالی شہر قندوز سے تعلق رکھنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان کے قبضے میں ایسی مسلح فوجی گاڑیاں ہیں جن پر بھارتی ہتھیار اور دیگر ملٹری آلات نصب ہیں۔ مغربی شہر فراح میں تو طالبان جنگجوؤں کو ایسی گاڑیاں چلاتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے جن پر افغان سیکرٹ سروس کا لوگو لگا ہوا ہے۔

برطانوی تنظیم 'کنفلکٹ آرمامنٹ ریسرچ‘ سے تعلق رکھنے والے مسلح تنازعات کے ماہر جسٹن فلائشنر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکی فوج اپنے 'انتہائی جدید‘ آلات افغانستان سے نکلتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ تاہم ایسی گاڑیاں، اسلحہ اور ہتھیار جو افغان سکیورٹی فورسز کے لیے چھوڑے گئے تھے وہ طالبان جنگجوؤں کے ہاتھ لگے۔

طالبان کے پاس جدید اسلحہ آ گیا

یہ بات اب درست ہے کہ طالبان اب ناکارہ یا کمزور اسلحے کے حامل ایک طاقت نہیں رہے۔ اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ طالبان کو پاکستان سمیت کئی اطراف سے مدد ملتی ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی اسلحہ ان کے ہاتھ لگنے سے ان عسکریت پسندوں کی طاقت میں مزید اضافہ ہو گا۔

سنگاپور کے تھنک ٹینک ایس راجاراتھنم اسکول آف انٹرنینشل اسٹڈیز سے منسلک رافائلو پینتوسی کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ قبضے میں لیے گئے ہتھیار دارالحکومت کابل پر حملے کے لیے استعمال ہوں گے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جدید آلات اور ہتھیار طالبان کی طاقت میں اضافہ کریں گے اور یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے۔

کابل کے محاصرے پر شہر میں خوف پھیل گیا

01:26

This browser does not support the video element.

قبضے میں لیے گئے ایک ہیلی کاپٹر کے ساتھ طالبان جنگجوؤں کی ویڈیوز قندوز ایئرپورٹ پر طالبان کے قبضے کے موقع کی ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے سابق اہلکار اور کاؤنٹر ٹیررزم کے ایک ماہر ایکی پیرٹز تاہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی کامیابیوں سے براہ راست لڑائی میں کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ طالبان کے پاس پائلٹ نہیں ہیں: ''ان کو صرف پراپیگنڈا کے مقصد سے استعمال کیا جائے گا۔‘‘

’افغان پارٹنرز کے لیے تمام تر ذرائع‘

امریکی صدر جو بائیڈن نے چند ہفتے قبل ہی کہا تھا، ''ہم نے اپنے افغان پارٹنرز کے لیے تمام تر ذرائع بہم پہنچا دیے ہیں۔ میں زور دے کر کہوں گا تمام تر ذرائع۔‘‘ امریکی صدر افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی اور طالبان کے خلاف جنگ افغانوں کے حوالے کرنے کے فیصلے کا دفاع کر رہے تھے۔

ایک سابق امریکی فوجی اہلکار جیسن امیرین کے مطابق واشنگٹن یہ بات بہت پہلے سے مدنظر رکھے ہوئے ہے کہ طالبان امریکی اسلحہ چُرا سکتے ہیں۔ پینٹاگون افغان مسلح افواج کے لیے اسلحے کی خریداری کے لیے اس بات کو ہمیشہ سے مدنظر رکھتا آیا ہے۔

امیرین کے بقول طالبان کی طرف سے حالیہ دنوں میں دیکھی جانے والی تیز رفتار پیش قدمی 'بدترین صورتحال‘ ہے۔ امیرین 2001ء میں افغانستان میں امریکی حملے کے وقت ایک اسپیشل یونٹ کے سربراہ رہے تھے۔

موجودہ افغان صورتحال نئی بات نہیں

افغانستان میں پیش آنے والی صورتحال امریکا کے لیے کوئی نئی چیز بھی نہیں ہے۔ سال 2014ء کے وسط میں جب امریکی فوجی عراقی شہر موصل سے نکل گئے تھے تو داعش کے حوالے سے ایسی ہی صورتحال پیش آئی تھی۔

امریکی فوج کے لیے خریدے گئے ہتھیاروں اور گاڑیوں کو نئے مالکان مل گئے تھے۔ اس سے نا صرف ان کی طاقت میں اضافہ ہوا تھا بلکہ داعش نے آن لائن نیٹ ورکس پر اس کا خوب چرچا بھی کیا تھا۔ داعش نے وہیں سے اپنی خود ساختہ خلافت قائم کی تھی۔

ا ب ا/ع ب (اے ایف پی، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں