امریکی افواج کا ساتھ دینے والے دو سو افغان امریکا پہنچ گئے
30 جولائی 2021
افغانستان میں امریکی افواج کی مدد کرنے والے دو سو سے زائد افغان باشندوں کو امریکا منتقل کر دیا گیا ہے۔ ایک خصوصی پرواز کے ذریعے یہ افغان جمعے کے دن ریاست ورجینیا کے واشنگٹن ڈلس انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچے۔
اشتہار
افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد امکان ہے کہ طالبان جنگجو ایسے مقامی افغان شہریوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیں، جنہوں نے امریکی اور غیر ملکی افواج کے لیے کام کیا ہو۔ اسی لیے ایسے افغانوں کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر انہیں امریکا منتقل کرنے کی اسکیم بنائی گئی تھی۔
اسی اسکیم کے تحت ان افغانوں کو امریکا لایا گیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کے لیے بطور مترجم کام کرنے والے اور سفارتکاروں کو دیگر انتظامی تعاون فراہم کرنے والے افغان شہری اور ان کے کنبوں کو امریکا لایا گیا ہے۔
اسپیشل ویزہ پروگرام کے تحت امریکا پہنچنے والے ان دو سو اکیس افغانوں میں ستاون بچے اور پندرہ نومولود بھی شامل ہیں۔ فلائٹ اویئر نامی ہوائی کمپنی نے بتایا ہے کہ یہ افغان شہری جمعے کے صبح واشنگٹن ڈی سی کے نواح میں واقع ڈلس پہنچے۔
امریکی صدر کا خصوصی شکریہ
امریکی صدر جو بائیڈن نے ان افغانوں کو خوش آمدید کہتے ان کی امریکا آمد کو ایک اہم سنگ میل قرار دیا ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں امریکی افواج اور سفارتکاروں کے ساتھ مل کر بیس برس تک کام کرنے والے افغانوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے گا۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP
7 تصاویر1 | 7
جو بائیڈن کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا، ''میں امریکا کا ساتھ دینے والے بہادر افغانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، آج میں ان کی امریکا آمد پر خوش آمدید کہتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہوں۔"
امریکی افواج اور سفارتکاروں کو تعاون فراہم کرنے والے افغان شہریوں اور ان کے کنبوں کو امریکا میں آباد کرنے کے منصوبے کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ڈیموکریٹ سیاستدانوں کے علاوہ ریپبلکن قانون سازوں نے بھی اس منصوبے کی ستائش کی ہے۔
جمعرات کے دن ہی کانگریس نے افغان ویزا پروگرام کا قانون قطعی اکثریت سے منظور کیا، جس کے تحت آٹھ ہزار اضافی ویزے جاری کیے جائیں گے جبکہ ان افغانوں کو امریکا میں بسانے کی خاطر پانچ سو ملین ڈالرز کا فنڈ مختص کیا جائے گا۔
اس سے قبل تقریبا ستر ہزار افغان پہلے ہی امریکا میں آباد کیے جا چکے ہیں۔ یہ افغان باشندے سن دو ہزار آٹھ سے امریکا آنا شروع ہوئے تھے۔ پروگرام کے تحت مزید سات سو افغان خصوصی ویزا پروگرام کے تحت جلد ہی امریکا پہنچ جائیں گے۔
ع ب / ز ص (خبر رساں ادارے)
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔