افغانستان میں نئے سیاسی انتشار کے درمیان امریکا نے طالبان کے ساتھ تاریخی افغان امن معاہدے کے تحت اپنی افواج کا انخلاء شروع کر دیا ہے۔
اشتہار
دوحہ میں گزشتہ ماہ ہوئے افغان امن معاہدے کے تحت امریکا اپنی فوجی موجودگی کو کم کرتے ہوئے اگلے 14 ماہ کے اندر افغانستان سے اپنی تمام ا فواج کو نکال لے گا۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے اہلکار کرنل سونی لیگیٹ نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کی اطلاع دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا، ”امریکا نے افواج کی واپسی کے باوجود افغانستان میں اپنے تمام مقاصد، بشمول القاعدہ اور 'دولت اسلامیہ‘ کے خلاف آپریشنز کی تکمیل کے لیے تمام فوجی وسائل اور حکام کو برقرار رکھا ہے۔"
امریکی افواج کا انخلاء ایسے وقت شروع ہو اہے جب افغانستان میں ایک نیا سیاسی انتشار پیدا ہوگیا ہے۔ ایک غیر معمولی پیش رفت میں پیر نو مارچ کو ایک ہی دن اور تقریباً ایک ہی وقت پر دو مختلف تقاریب میں اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے افغانستان کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے نئے افغان صدر کے طور پر اشرف غنی کی بظاہر حمایت کرتے ہوئے ملک میں متوازی حکومت کے قیام کی مخالفت کی ہے۔ دوسری طرف عبداللہ عبداللہ نے 'افغانستان کی آزادی، قومی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کی حفاظت کرنے‘ کا عہد کیا ہے۔
افغانستان کے الیکشن کمیشن نے موجودہ صدر اشرف غنی کو گزشتہ ستمبر میں ہوئے انتخابات میں کامیاب قرار دیا تھا تاہم عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
تجزیہ کار اور ماہرین اس تازہ سیاسی عدم استحکام کو نہ صرف امن معاہدہ بلکہ افغانستان کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے بھی انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ ملک کی تازہ سیاسی صورت حال کے بعد ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا آج دس مارچ سے بین الافغان مذاکرات شرو ع ہوسکیں گے یا نہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ستمبر 2001ء میں نیویارک پر القاعدہ کے حملوں کے بعد امریکا نے افغانستان پر فوج کشی کر کے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کردیا تھا لیکن اس کے بعد سے ملک میں حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ طالبان نے افغانستان کی فوج کے علاوہ امریکا اور اس کے حلیف ملکوں کی افواج کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ جس میں ایک محتا ط اندازے کے مطابق 2400 سے زائد امریکی فوجی مارے گئے۔ امریکا نے فروری میں طالبان کی قیادت کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت پہلے مرحلے میں پینٹاگون اگلے چھ ماہ کے اندر اپنی افواج کی تعداد 12000 سے گھٹا کر 8600 کردے گا اور چودہ مہینوں کے اندر اپنی، اپنے اتحادیوں اور دیگر شریک ملکوں کی پوری فوج کو افغانستان سے نکال لے گا۔ اس میں غیر سفارتی اہلکار، سویلین، پرائیوٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز، تربیت دینے والے، مشیر اور معاون اہلکار شامل ہیں۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ امریکی افواج کی تعداد 8600 تک لانے کے بعد صورت حال کا تجزیہ کیا جائے گا کہ آیا طالبان معاہدے کی شرطوں پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔
امریکا طالبان کے ساتھ افغان امن معاہدے کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے توثیق کرانے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔اس حوالے سے ایک قرارداد آج منگل کے روز سلامتی کونسل میں پیش کی جاسکتی ہے۔
دریں اثنا طالبان نے افغانستان کے دونوں بڑے سیاسی رہنماؤں کو ملک میں امن کے قیام کے لیے کام کرنے کا مشورہ دیا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں کے ہی عہدہ صدارت کا حلف لینے پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان تقاریب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان 'غلاموں‘ کے لیے ذاتی مفاد سے زیادہ کچھ اہم نہیں ہے۔
اس دوران امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہا، ”ایک حکومت اور متفقہ افغانستان کو ترجیح دینا ملک کے مستقبل اور خاص طور پر امن کے مقصد کے لیے اہم ہے۔"
2019 میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2019 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 81 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: Reuters/E. Su
1۔ افغانستان
دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2۔ عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست رہنے کے بعد دوسرے نمبر پر آیا۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2018ء کے دوران عراق میں دہشت گردی کے 1131 واقعات پیش آئے جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 57 فیصد کم ہیں۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں ہلاکتوں میں 75 فیصد کمی دیکھی گئی۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور 9.24 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
3۔ نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.59 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 562 دہشت گردانہ حملوں میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 772 زخمی ہوئے۔ سن 2001 سے اب تک نائجیریا میں 22 ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Stringer
4۔ شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش، حیات تحریر الشام اور کردستان ورکرز پارٹی کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2018 کے دوران دہشت گردی کے 131 واقعات رونما ہوئے جن میں 662 انسان ہلاک جب کہ سات سو سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.0 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
5۔ پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 366 دہشت گردانہ واقعات میں 537 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ گزشتہ برس دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 81 فیصد کم رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
6۔ صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے 286 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں 646 افراد ہلاک ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.8 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
7۔ بھارت
اس برس کے عالمی انڈیکس میں بھارت آٹھویں سے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ بھارت میں دہشت گردی کے قریب ساڑھے سات سو واقعات میں 350 افراد ہلاک جب کہ 540 زخمی ہوئے۔ بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2018ء کے دوران کشمیر میں 321 دہشت گردانہ حملوں میں 123 افراد ہلاک ہوئے۔ کشمیر میں دہشت گردانہ حملے حزب المجاہدین، جیش محمد اور لشکر طیبہ نے کیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
8۔ یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 227 واقعات میں 301 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی شاخ AQAP کے دہشت گرد ملوث تھے۔ تاہم سن 2015 کے مقابلے میں یمن میں دہشت گردی باعث ہلاکتوں کی تعداد 81 فیصد کم رہی۔
تصویر: Reuters/F. Salman
9۔ فلپائن
فلپائن نویں نمبر پر رہا جہاں سن 2018 کے دوران دہشت گردی کے 424 واقعات پیش آئے جن میں قریب تین سو شہری مارے گئے۔ سن 2001 سے اب تک فلپائن میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ رواں برس جی ٹی آئی انڈیکس میں فلپائن کا اسکور 7.14 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Favila
10۔ جمہوریہ کانگو
تازہ انڈیکس میں دسویں نمبر پر جمہوریہ کانگو رہا جہاں الائیڈ ڈیموکریٹک فورسز اور دیگر گروہوں کے دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ ان گروہوں کے حملوں میں زیادہ تر عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔