امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے درمیان طالبان حملے
8 جولائی 2021
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے آغاز کے بعد سے طالبان عسکریت پسندوں نے ایک بڑے شہر پر قبضہ کرنے کی پہلی کوشش کے تحت قلعہ نو پر زبردست حملہ کیا ہے۔ اس دوران ایران نے اچانک امن مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔
اشتہار
افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان نے بدھ کے روز مغربی بادغیش صوبے کے دارالحکومت قلعہ نو پر حملہ کیا ہے۔ صوبائی گورنر حسام الدین شمس نے بتایا،”وہ شہر کے کچھ حصوں میں داخل ہوگئے تاہم کچھ دیر کے بعد دشمن کو سخت مزاحمت کاسامنا کرنا پڑا۔"
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بتایا ہے کہ افغان اسپیشل فورسز نے طالبان حملہ آوروں پر جوابی فضائی حملے کیے اور انہیں واپس لوٹنے پر مجبور کردیا۔
قبل ازیں خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے شمس کے حوالے سے بتایا تھا کہ قلعہ نو کے تمام اضلاع کا سقوط ہوگیا ہے۔ دیگر صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان پولیس ہیڈکوارٹر میں داخل ہوگئے اور بادغیش سینٹرل جیل سے دو سو قیدی فرار ہوگئے۔ مقامی باشندے اپنی جان بچانے کے لیے پڑوسی صوبے ہرات کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ موٹر سائیکلوں پر سوار طالبان جنگجو شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب عسکریت پسندوں نے شمالی افغانستان کے دیہی اضلاع پر قبضے کرلیے ہیں اور ہرات صوبے کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں۔
افغان وزارت دفاع کے ترجمان فواد امن نے عسکریت پسندوں کو کھدیڑ دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ طالبان نے قلعہ نو کی جنگ کے حوالے سے عوامی طورپر فی الحال کوئی بیان نہیں دیا ہے۔
افغان وزارت دفاع نے دعوی کیا ہے کہ عسکریت پسندوں کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے جبکہ حکومت نواز فوج کے درجنوں اہلکار بھی مارے گئے ہیں۔
ایران نے اچانک مذاکرات کی میزبانی کی
بدھ کے روز جس وقت افغانستان میں ایک طرف جنگ جاری تھی اسی وقت پڑوسی ملک ایران طالبان کے سفیروں اور کابل حکومت کے عہدیداروں کے درمیان بات چیت کی میزبانی کر رہا تھا۔ بات چیت میں افغانستان کے سابق نائب صدر یونس قانونی بھی موجود تھے۔
اشتہار
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے طالبان اور حکومت کے نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ”اپنے ملک کے مستقبل کے لیے آج کوئی سخت فیصلہ کریں۔" ظریف نے افغانستان میں امریکا کی ”ناکامی“ کی بھی نکتہ چینی کی۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا اور نیٹو فورسز نے کابل کے قریب واقع بگرام فوجی اڈے کو خالی کردیا تھا۔ یہ ایئر بیس طالبان مخالف سرگرمیوں میں کمانڈ سینٹر کے طورپر کام کرتا تھا۔ امریکی اور نیٹو فورسز کے چلے جانے کی وجہ سے افغان حکومتی فورسیز کو فضائی مدد بڑی حد تک کم ہوگئی ہے۔
امریکا نے گزشتہ روز کہا تھا کہ افغانستان سے اس کی افواج کا تقریباً 90فیصد انخلاء مکمل ہوچکا ہے۔ نیٹو کے بیشتر فوجی بھی اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ بیس برس قبل سن 2001میں امریکا نے افغانستان پر فوجی کارروائی کرکے طالبان حکومت کو معزول کردیا تھا۔ امریکا نے طالبان پر نیویارک میں نائن الیون حملوں کے ملزم القاعدہ کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا تھا۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق تہران کو یہ خوف ہے کہ افغانستان میں افراتفری اور خانہ جنگی کی صورت میں مہاجرین کی بڑی تعداد پناہ لینے کے لیے ایران کا رخ کر سکتی ہے۔ ایران میں پہلے سے ہی ہزاروں افغان پناہ گزین موجود ہیں۔
حکومت نواز ہزاروں افغان فوجی تاجکستان بھاگ گئے
افغانستان امور کے ماہر نشنک موتوانی نے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان نے قلعہ نو پر قبضہ کرلیا تو یہ اسٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ”اس سے افغان فورسیز نفسیاتی دباو میں آجائیں کے۔ "
افغان وزارت دفاع کے عہدیداروں نے حالانکہ طالبان کے حملوں سے بڑے شہروں، اہم شاہراہوں اور سرحدی قصبوں کو محفوظ رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔