1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی افواج کے انخلاء سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، افغان صدر

21 دسمبر 2018

افغانستان سے امریکی دستوں کی کمی کے اعلان پر کابل نے انتہائی پرسکون ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ افغان صدر کے ایک ترجمان کے مطابق، ’’امریکی افواج کا انخلاء جنگ سے متاثرہ اس ملک کی سلامتی پر کوئی اثرات مرتب نہیں کرے گا‘‘۔

Afghanistan | Angriff in Nangarhar
تصویر: Getty Images/AFP//N. Noorullha

شام سے فوج کو مکمل طور پر واپس بلانے کے اعلان کے بعد امریکا افغانستان سے بھی بڑی تعداد میں اپنے فوجیوں کے انخلاء کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس تناظر میں افغان صدر کے ایک ترجمان ہارون چکنسوری نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا، ’’اگر انہوں نے افغانستان سے انخلاء کیا تو اس کے اثرات اس ملک کی سلامتی پر بالکل نہیں ہوں گے کیونکہ گزشتہ ساڑھے چار سال سے افغان دستوں نے کنٹرول سنبھالا ہوا ہے‘‘۔

تصویر: picture-alliance/dpa/AP/M. Hossaini

جمعرات کو امریکی اہلکاروں کی طرف سے میڈیا نمائندوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو واپس بلا لیں گے۔

 2001 ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے اب تک ہندو کش کی اس ریاست میں امریکا سمیت بین الاقوامی امن دستے مختلف اوقات میں تعینات رہے ہیں تاہم امریکی فوجی تعیناتی افغانستان میں ایک خاص اہمیت کی حامل رہی ہے۔ اس وقت بھی قریب چودہ ہزار  امریکی فوجی افغانستان میں تعینات ہیں۔

 واشنگٹن انتظامیہ کے اہلکاروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز اور اے ایف پی کو بتایا ہے کہ امریکی صدر اپنے ہزاروں فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دریں اثناء وال اسٹریٹ جرنل نے عندیہ دیا ہے کہ غالباً 7000 امریکی فوجی افغانستان سے واپس بلا لیے جائیں  گے۔

روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے ایک سینیئر افغان اہلکار نے کہا کہ اس امریکی انخلاء سے لازمی طور پر آپریشن پر اثر پڑے گا تاہم یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پہلے کون سا یونٹ واپس جاتا ہے۔

سترہ سال سے جاری افغان جنگ میں اب تک دو ہزار چار سو سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ یہ تنازعہ تقریباً ایک لاکھ افغانوں کی جان لے چکا ہے۔

طالبان کے خطرے نے امریکا کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا

01:42

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں