امریکی ’اقتصادی دہشت گردی‘ کے خلاف ایران کا علاقائی محاذ
8 دسمبر 2018ايرانی صدر حسن روحانی نے امريکا کی جانب سے عائد کردہ نئی پابنديوں کو ’اقتصادی دہشت گردی‘ کے مساوی قرار ديا ہے۔ انہوں نے دارالحکومت تہران ميں افغانستان، چين، پاکستان، روس اور ترکی کے پارلیمانی اسپیکروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اس وقت ہم سب کو امریکی اقتصادی دباؤ کا سامنا ہے۔‘‘
صدر حسن روحانی کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ’’ہم سب کو ایک ایسے بیرونی حملے کا سامنا ہے، جس سے نہ صرف ہماری آزادی اور شناخت کو خطرہ ہے بلکہ اس دباؤ سے طویل المدتی تعلقات کو بھی خطرات لاحق ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ امريکا کی ’غير قانونی اور نا انصافی پر مبنی‘ پابنديوں نے باعزت ايرانی قوم کو ’دہشت گردی کی مانند‘ متاثر کيا ہے۔ ان کے بقول دہشت گردی کا مقصد يہی ہوتا ہے کہ افراتفری پھيلے اور ديگر ممالک متاثرہ ملک ميں سرمايہ کاری سے خوف کھائيں۔ روحانی کی کوشش ہے کہ امريکی پابنديوں کے خلاف علاقائی سطح پر زیادہ سے زیادہ حمايت حاصل کی جائے۔
تہران میں ہونے والی یہ کانفرنس خطے کے ان ممالک کی دوسری سالانہ کانفرنس تھی۔ اس کا مقصد انسداد دہشت کے علاوہ علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس حوالے سے ہونے والی پہلی کانفرنس گزشتہ برس اسلام آباد میں ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں شریک زیادہ تر ممالک کو ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ صدر ٹرمپ تجارت کو ایک سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
چینی کمپنی ہوائی کے چیف فنانشل آفیسر کی کینیڈا میں گرفتاری کے بعد بیجنگ اور واشنگٹن کے سفارتی تعلقات مزید پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ اس چینی افسر کی گرفتاری کے احکامات امریکی حکام کی طرف سے جاری کیے گئے تھے۔ روس پر بھی نئی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں جبکہ ترکی بھی لیرا کی قدر میں کمی کا الزام امریکا پر عائد کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی انتظامیہ پاکستان کی ملین ڈالر کی امداد بند کر چکی ہے۔
صدر روحانی کا کانفرنس میں شریک ممالک پر زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ چین، روس یا ترکی، جس کے خلاف بھی بھی امریکی پابندیاں عائد ہوتی ہیں، ان سے ہم سب متاثر ہوتے ہیں۔
ا ا / ع س (نیوز ایجنسیاں)