1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

امریکی الیکشن کا مذاق، دنیا حیران و پریشان

4 نومبر 2020

صدر ٹرمپ کی طرف سے ووٹوں کی گنتی میں مبینہ دھاندلی اور نتائج پر سوالیہ نشان لگانے کے بعد عالمی سطح پر امریکی نظام جمہوریت پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

US Wahl 2020 Wahlhelfer Detroit
تصویر: Elaine Cromie/Getty Images

یورپ میں ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ بظاہر امریکی نظام حکومت زوال پذیر ہے۔ صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد جرمن وزیر دفاع اینگریٹ کرامپ کارین باؤر نے خبردار کیا کہ امریکا ممکنہ بحران کی طرف جا سکتا ہے۔ جرمنی کے زیڈ ڈی ایف نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''یہ ایک دھماکا خیز صورتحال ہے۔ یہ حالات ایک آئینی بحران میں بدل سکتے ہیں، جو کہ ہمارے لیے نہایت تشویش ناک ہے۔‘‘

امریکا میں جو بھی جیتے،ایران کی امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہو گی: خامنہ ای

امریکی صدارتی انتخابات کی گھڑی آگئی

برطانیہ میں اپوزیشن رہنما کیئر سٹارمر نے کہا کہ انتخابات میں کوئی ایک امیدوار خود ہی ہار جیت کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ تاہم وزیر خارجہ ڈومینک راب نے صبر سے کام لینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ برطانیہ کو امریکا میں "چیک اینڈ بیلنس" کے نظام پر پورا بھروسا ہے۔

صورتحال پر یورپی یونین کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ واشگنٹن میں سیاسی خلفشار  پر اس وقت ماسکو اور بیجنگ  میں خوشیاں منا جارہی ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا میں یہ حالات سب کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔

روس اور چین میں خوشیاں؟

روس اور چین نے باضابطہ طور پر امریکی الیکشن پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ تاہم روسی پارلیمان کے اسپیکر نے ایک بیان میں کہا اس الیکشن سے یہ ثابت ہوگیا کہ امریکی جمہوریت کا کوئی معیار نہیں۔

روسی فیڈریشن کونسل کمیشن کے چیئرمین الیکسی پُشکوف نے کہا کہ الیکشن میں صدر ٹرمپ کی توقع سے زیادہ بہتر کارکردگی کے بعد اب یہ طے نظر آتا ہے کہ وہ ہار نہیں مانیں گے اور امریکا میں اب ایک "شدید تنازع" جنم لے گا۔

چین کے سرکاری میڈیا نے تبصرہ کرتے ہوئے امریکی الیکشن کو ترقی پذیر مملک کے انتخابات سے تشبیہ دی، جہاں دھاندلی کے الزامات اور نتائج تسلیم کرنے سے انکار معمول کی بات ہوتی ہے۔ شنوا نیوز ایجنسی کے ڈپٹی ایڈیٹر مِنگ جِنوئی نے کہا کہ امریکا کے لیے اب کوئی امید باقی نہیں بچی۔

جمہوریت ہائی جیک ہو رہی ہے

جنوبی افریقہ کے سب سے بڑے شہر جوہانسبرگ کے معروف براڈکاسٹر آلیور ڈِکسن نے امریکی الیکشن کو ایک مذاق قرار دیا اور کہا کہ صدر ٹرمپ نے جس قبل از وقت انداز میں اپنی جیت کا دعویٰ کر ڈالا، وہ افریقی مبصرین کے لیے غیرمعمولی ضرور تھا لیکن غیر متوقع نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ جس انداز میں الیکشن کو متنازعیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، افریقی ممالک میں اس کی ایک لمبی روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ "جب جمہوریت کو ہائی جیک کیا جا رہا ہو، تو اسے بچانے کے لیے جمہوری اداروں کو ہی آگے آنا پڑتا ہے۔"

امریکی صدارتی نظام، کس ووٹر کا ووٹ زیادہ اہم ہے؟

03:53

This browser does not support the video element.

امریکیوں کو صبر و تحمل کی تلقین

ادھر آسٹریلیا کے سابق وزیراعظم میلکم ٹرن بُل نے امریکی قیادت پر زور دیا کہ وہ آخری ووٹ کی گنتی تک صبر سے کام لیں جبکہ اپوزیشن کی رہنما پینی وانگ نے کہا کہ آسٹریلیا کے مفاد میں ہے کہ امریکا میں جمہوریت مستحکم رہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ امریکی الیکشن کون جیتتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا عالمی معاہدوں کی پاسداری کرنا سیکھے۔

 

ش ج، ع ت (روئٹرز، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں