جمعرات کو رات گئے بعض امریکی شہروں میں صدر ٹرمپ کے حمایتوں اور مخالفین نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔
اشتہار
امریکی صدارتی انتخابات میں جمعہ چھ نومبر کو بھی ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ جن ووٹوں کو گنا جا رہا ہے، وہ ڈاک کے ذریعے روانہ کیے گئے تھے۔ پینسلوینیا، جارجیا، نیواڈا، ایریزونا میں ڈیموکرٹک امیدوار جو بائیڈن اور صدر ٹرمپ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ جاری ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق جو بائیڈن اس وقت دوڑ میں آگے ہیں تاہم دونوں امیدوار کی نگاہیں جیت پر لگی ہوئی ہیں۔
ریاست ایریزونا کے بڑے شہر فینکس میں ٹرمپ کے حامیوں نے انتخابی دفتر کے باہر جمع ہو کر اپنے لیڈر کے حق میں نعرے بازی کی۔
مظاہرین سے دائیں بازو کے ایک ریڈیو پروگرام کے میزبان الیکس جونز نے تقریر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ الیکشن چوری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس مظاہرے کے لوگوں نے کچھ ٹرمپ مخالف افراد کا پیچھا کر کے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق پولیس نے کسی پرتشدد صورت حال کے پیدا ہونے سے قبل مداخلت کر کے انہیں ایک دوسرے سے دور کیا۔
پینسلوینیا میں کشیدگی
فینکس کی طرح کئی اور امریکی شہروں میں بھی چھوٹے بڑے مظاہروں ہوئے ہیں۔ ریاست پینسلوینیا کے شہر فیلیڈیلفیا میں ٹرمپ اور جو بائیڈن کے حامی سڑکوں پر نکل آئے۔ ٹرمپ کے حامیوں نے ووٹوں کی گنتی کے سست عمل کے خلاف نعرے بازی کی جبکہ جو بائیڈن کے حامی ایسی ٹی شرٹس پہنے ہوئے تھے جن پر 'ہر ووٹ گنا جائے‘ کے نعرے درج تھے۔
فیلیڈیلفیا پولیس نے کہا ہے کہ ان اطلاعات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ بعض لوگ شہر کے کنوینشن سیٹر پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس کنوینشن سینٹر میں ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
پولیس نے تفتیش کے دوران ایک مسلح شخص کو تحویل میں لے لیا ہے۔
پینسلوینیا کے دارالحکومت ہیرس برگ میں بھی ٹرمپ کے قریب ایک سو حامیوں کے مظاہرے کی اطلاع ہے جو 'الیکشن کی چوری روکی جائے‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس مظاہرے کا انتظام ورجینیا کے سرگرم قدامت پسند رہنما اسکاٹ پریسلر نے کیا تھا۔
جوابی مظاہرے
ان مظاہروں کے جواب میں سیاہ فام حقوق کے لیے سرگرم تحریک "بلیک لائیوز میٹر‘ سے وابستہ لوگ بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ میلواکی میں ایک کار میں سے ٹرمپ کے حامیوں پر انڈے پھینکے گئے۔
دارالحکومت واشنگٹن میں بھی صدر ٹرمپ کے خلاف کاروں اور سائیکلوں کی ایک ریلی نکالی گئی جبکہ ریاست نیواڈا کے بڑے شہر لاس ویگاس میں ایک مظاہرے میں لگ بھگ چار سو افراد شریک ہوئے۔