امریکی انتخابات: ٹرمپ کا پہلے شکست کا اقرار، پھر انکار
16 نومبر 2020
ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی مرتبہ اشارہ دیا کہ جو بائیڈن انتخابات ’جیت‘ گئے ہیں لیکن بعد میں اپنے اعتراف سے مکر گئے اور بائیڈن کو کامیاب بتانے کے لیے میڈیا کی نکتہ چینی کی۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز ایک ٹوئٹ کیا جس سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ انہوں نے حالیہ صدارتی انتخابات میں اپنے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن سے شکست تسلیم کرلی ہے لیکن بعد میں ٹرمپ نے متعدد ٹوئٹ کیے جس کی وجہ سے یہ'غلط فہمی‘دور ہوگئی اور یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ اب بھی اپنی کامیابی پر مصر ہیں۔
وہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں حالانکہ اس حوالے سے انہوں نے اب تک کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 'انتخاب میں سخت دھاندلی کی وجہ سے وہ (جوبائیڈن) جیت گئے۔‘
ٹرمپ کے اس ٹوئٹ سے ایسا لگا گویا وہ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپنی شکت تسلیم کرلیں گے تاہم یہ خوش فہمی جلد ہی ختم ہوگئی۔ انہوں نے ایک گھنٹے بعد ایک دوسرا ٹوئٹ کرکے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے اپنے پہلے ٹوئٹ کی بظاہر تردید کردی۔ انہوں نے دوسری ٹوئٹ میں لکھا”میں کچھ بھی نہیں تسلیم کرتا۔ ہمیں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی۔"
امریکی صدر ابھی تک اپنے اس الزام کے سلسلے میں کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکے ہیں کہ جو بائیڈن نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کر کے انہیں شکست دی ہے۔
ٹرمپ نے تمام بڑے امریکی میڈیا اداروں کی طرف سے جو بائیڈن کو کامیاب قرار دیے جانے کے پس منظر میں کہا”وہ صرف فیک نیوز میڈیا کی نگاہوں میں کامیاب ہوئے ہیں۔"
جن امریکی میڈیا اداروں نے جو بائیڈن کو کامیاب قرار دیا ہے ان میں ایسوسی ایٹیڈ پریش بھی شامل ہے، جو امریکا کے پہلے نمبر کی نیوز ایجنسی ہے اور 1848 سے ہی صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے والوں کے کی خبریں دیتی رہی ہے۔
ٹرمپ نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کے لیے متعدد ریاستوں میں مقدمات درج کرانے کی مہم شروع کی لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ امریکی سکیورٹی حکام پہلے ہی دھاندلی سے متعلق ٹرمپ کے دعووں کی تردید کرچکے ہیں اور کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات'امریکی تاریخ میں سب سے محفوظ ترین انتخابات تھے۔‘
صدر ٹرمپ کا حالیہ بیان واشنگٹن ڈی سی میں ان کے حامیوں کی طرف سے منعقدہ ایک ریلی کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس ریلی میں مظاہرین نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے تھے۔ گوکہ یہ مظاہرے بڑی حد تک پرامن رہے تاہم سنیچر کی شام کو اس وقت پرتشدد صورت اختیار کرلی جب صدر ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین میں جھڑپ ہوگئی۔
پولیس نے اس سلسلے میں 20 افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
اشتہار
ٹرمپ پر شکست تسلیم کرنے کے لیے دباؤ
دریں اثنا صدر ٹرمپ پر مسلسل دباو بڑھ رہا ہے کہ وہ امریکی صدارتی انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم کرلیں اور الیکشن میں کامیاب ہونے والی پارٹی اور امیدوار کو ان کی جگہ لینے دیں۔
بعض ریپبلیکن رہنماوں نے بھی کہا کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کو تمام ضروری سکیورٹی معلومات دینے کا سلسلہ شروع ہوجانا چاہیے تاکہ وہ جنوری میں وائٹ ہاوس میں اقتدار سنبھالیں تو انہیں آسانی ہو۔
جو بائیڈن کی ٹیم نے بھی صدر ٹرمپ سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی شکست باضابطہ تسلیم کرلیں کیوں کہ جب تک ٹرمپ اپنی شکست تسلیم نہیں کریں گے بائیڈن کی عبوری ٹیم کو انٹلی جنس بریفنگ اور دیگر اہم سرکاری معلومات تک رسائی ممکن نہیں ہوگی۔
ج ا / ص ز (اے پی، روئٹرز)
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔