امریکی انخلاء: افغانستان کے ہمسائیوں کو نئے مہاجرین کا خوف
1 جنوری 2019
امریکا کی طرف سے افغانستان سے اپنی فوجی نکالنے کے اعلان کے بعد اس جنگ زدہ ملک کے ہمسایوں کے لیے یہ خوف اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ انہیں ایک مرتبہ پھر بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی اپنے ملکوں میں آمد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکا کی طرف سے اس اچانک فیصلے کے تناظر میں افغانستان کے اُن ہمسایہ ممالک کے سفارت کاروں نے ایسے خدشات کا اظہارکیا ہے، جو کابل میں امریکی حکام کے ساتھ مذاکرات میں شریک رہے۔ ان سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ممکنہ طور پر سرحدی کنٹرول میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
کابل میں تعینات ایک سینیئر سفارت کار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’ابھی تک تو انخلاء کے بارے میں صورتحال واضح نہیں ہے، لیکن ہمیں ایک واضح ایکش پلان تیار رکھنا ہو گا۔‘‘ اس سفارت کار کا مزید کہنا تھا، ’’ صورتحال تیزی سے بد سے بدتر ہو سکتی ہے‘‘۔
وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک پینٹاگون کو افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا حکم جاری نہیں کیا۔ تاہم امریکی حکام نے ان رپورٹوں کی بھی تردید نہیں کی کہ امریکا افغانستان میں تعینات اپنے کُل 14 ہزار فوجیوں میں سے نصف کو واپس بلانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
ایران سے افغان مہاجرین کی تکلیف دہ واپسی
اقوام متحدہ کے مطابق ہم سایہ ممالک خصوصاﹰ ایران سے مہاجرین کو جنگ زدہ ملک افغانستان واپس بھیجا جا رہا ہے۔ صرف پچھلے ہفتے ایران سے چار ہزار افغان مہاجرین کو جبراﹰ واپس ان کے وطن بھیج دیا گیا۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک غیر یقینی مستقل
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 19 تا 25 نومبر کے دوران ہزاروں افغان مہاجرین کو ایران سے افغانستان واپس لوٹایا گیا۔ اس تنظیم کا کہنا ہےکہ مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کی ایک وجہ ایران میں تارکین وطن کے لیے پناہ گاہوں کی اب تر ہوتی صورت حال ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک تنہا سڑک
عالمی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 89 فیصد مہاجرین، جنہیں واپس افغانستان بھیجا گیا، تنہا تھے، جن میں سے بڑی تعداد تنہا مردوں کی تھی۔ واپس بھیجے جانے والے مہاجرین میں فقط سات خواتین تھیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
پرانے مہاجرین کا تحفظ
افغان مہاجرین کو شدید سردی کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم نے اس دوران ساڑھے سات سو مہاجر گروپوں کی امداد کی جن میں 127 تنہا بچے بھی شامل تھے، جب کہ 80 افراد کو طبی امداد دی گئی۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایران میں مہاجرین سے نامناسب برتاؤ
اس شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران میں اسے بے دخل کرنے سے قبل ڈنڈے سے پیٹا گیا۔ اس کے مطابق اس کے پاس ایران میں کام کرنے کے باقاعدہ کاغذات بھی تھے مگر اسے واپس بھیج دیا گیا۔ ہرات میں ایرانی قونصل خانے کے ایک عہدیدار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغان مہاجرین کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار نہیں کی جا رہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
سخت سردی میں گھر واپسی کا راستہ بھی نہیں
ایران بدر کیے جانے والے اس مہاجر نے نام نہیں بتایا مگر اسے بارہ دن تک ایک حراستی مرکز میں کام کرنا پڑا تاکہ وہ اس قید سے نکل سکے۔ ’’یہاں سخت سردی ہے اور میری رگوں میں لہو جم رہا ہے۔‘‘ میں نے اپنا فون تک بیچ دیا تاکہ مجھے رہائی ملے۔ اب میں یہاں سرحد پر ہوں اور گھر واپسی تک کے پیسے نہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مشکل زندگی کو واپسی
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رواں برس ایران اور پاکستان سے وطن واپس پہنچے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ قریب 90 ہزار افراد افغانستان میں داخلی طور پر بے گھر ہیں اور مختلف کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
6 تصاویر1 | 6
یہ خبریں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی تھیں جب افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے طالبان کے نمائندوں کے ساتھ گزشتہ ماہ ملاقاتیں کی تھیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے معاملے پر بھی بات ہوئی۔
روئٹرز کے مطابق علاقائی طاقتوں مثلاﹰ ایران اور پاکستان کے علاوہ روس کا بھی ایک طویل عرصے سے یہ خیال ہے کہ امریکا افغانستان میں مستقل فوجی اڈے برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ مبصرین کے مطابق امریکا کی افغانستان سے اچانک واپسی کی کوئی مناسب وجہ موجود نہیں۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر گریم اسمتھ کے بقول، ’’امریکا کی ممکنہ واپسی کی خبر، علاقے میں ایک محتاط پر امیدی کی وجہ تو ہو سکتی ہے مگر اس طرح اچانک واپسی وہ بھی نہیں چاہتے۔‘‘ اسمتھ مزید کہتے ہیں، ’’تمام فریق یہ بات جانتے ہیں کہ اچانک واپسی سے ایک نئی خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جو علاقے کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔ ہمسائے سرپرائز کو پسند نہیں کرتے اور واشنگٹن کی جانب سے غیر یقینی سگنلز ان میں پریشانی پھیلا رہے ہیں۔‘‘
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی 1400 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا کام پہلے سے ہی شروع کر رکھا ہے اور اس سرحد پر 50 ہزار پیراملٹری اہلکار بھی تعینات ہیں۔ دوسری طرف افغانستان میں کسی ممکنہ افراتفری کی صورت میں پاکستان کا رُخ کرنے والے نئے مہاجرین کے حوالے سے بھی تیاری کی جا رہی ہے۔
ایک پاکستان اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’افغان مہاجرین کی نئی ممکنہ لہر سے نمٹنے کے لیے سرحد کے قریب ہی کیمپ قائم کیے جائیں گے اور انہیں پاکستان میں غیر قانونی طور پر گھر حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
ایران سے حالیہ کچھ عرصے کے دوران بڑی تعداد میں ایسے افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیج دیا گیا جو بغیر اندراج کے وہاں رہائش پذیر تھے، تاہم کابل میں تعینات ایرانی حکام نے اب کہا ہے کہ امریکی فوجیوں کی واپسی کی صورت میں یہ صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔
ایک ایرانی اہلکار نے روئٹرز سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ افغانوں کا ایران میں داخلے کا راستہ روکا جائے۔ ہم انہیں روکنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتے، لیکن اچانک امریکی انخلاء سے صورتحال بحران کا شکار ہو جائے گی۔‘‘