امریکی اور جرمن خفیہ ایجنسی میں تعاون کا تنازعہ
4 مئی 2015حال ہی میں یہ اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا کہ جرمن خفیہ ادارہ ’بی این ڈی‘ طویل عرصے تک جاسوسی میں قومی سلامتی کے امریکی ادارے’این ایس اے‘ کا ساتھ دیتا رہا ہے اور اس دوران فرانس اور یورپی کمیشن کی خفیہ نگرانی کی گئی ہے۔ یہ اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد جرمن میڈیا میں یہ تنازعہ شروع ہو گیا تھا کہ امریکا اپنے ہی اتحادی ملکوں کی جاسوسی کر رہا ہے اور اس سلسلے میں جرمن خفیہ ایجنسی کو استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد ملک کے کئی نامور سیاستدانوں نے ملکی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے مستعفی ہونے اور اس سلسلے میں تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔
آج اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے دارالحکومت برلن میں کہا کہ شہریوں کی حفاظت کے لیے جرمن خفیہ ادارے کا این ایس اے کے ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہے، ’’بین الاقوامی دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے دیگر خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون ضروری ہے۔‘‘ لیکن اس کے ساتھ ہی امریکا کی طرف سے اپنے دوستوں کی جاسوسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا، ’’ جہاں بہتری لانا ضروری ہے، وہاں لازمی طور پر بہتری لائی جانی چاہیے۔‘‘
دریں اثناء جرمن چانسلر کے ایک ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ انگیلا میرکل اس جرمن پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، جو امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے کی طرف سے یورپ میں جاسوسی کی سرگرمیوں اور مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا دفتر ملکی خفیہ ایجنسی پر نظر رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملکی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر بھی آئندہ بدھ کے روز پارلیمانی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔
دوسری جانب جرمن خفیہ ادارے کے سربراہ گیرہارڈ شِینڈلر نے اس بات کی تردید کی ہے کہ جرمن خفیہ ایجنسی این ایس اے کے لیے آلہء کار بن چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض معاملات میں بین الاقوامی تعاون ضروری ہے۔ مثال کے طور پر شدت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ سے متعلق معلومات کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی جرمن نائب چانسلر زیگمار گابریئل نے بھی ان الزامات کی مکمل تحقیات کروانے کا مطالبہ کیا ہے، جن کے مطابق جرمن اور امریکی خفیہ ادارے مل کر جرمن کمپنیوں کے علاوہ فرانس اور آسٹریا کی جاسوسی کرتے رہے ہیں۔ جرمن نائب چانسلر کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جاسوسی کے اس معاملے میں جرمن خفیہ ادارے کی شمولیت کا اسکینڈل ’ملکی سیاست کے لیے شدید دھچکا‘‘ ثابت ہو سکتا ہے۔