1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امریکی اور جرمن ملے ہوئے ہیں‘، سنوڈن

9 جولائی 2013

امریکی خفیہ ادارے NSA کے سابق کنٹریکٹر اور کمپیوٹر ماہر ایڈورڈد سنوڈن نے جرمن جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ کے ساتھ اپنے پیر کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ جرمن اور امریکی خفیہ ادارے مل کر کام کرتے ہیں۔

تصویر: Fotolia/Gina Sanders

فون اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی جاسوسی کے امریکی پروگرام ’پرزم‘ کے تحت صرف جرمنی میں ہر مہینے پانچ سو ملین ٹیلی فون کالز، مختصر پیغامات اور ای میلز کی نگرانی کی جاتی ہے۔ تاہم جرمنی کے تینوں خفیہ اداروں کے صدور نے متفقہ طور پر جرمن پارلیمان کی نگران کمیٹی کو یہ بتایا ہے کہ اُنہیں ’پرزم‘ کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔

تاہم اس پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین تھوماس اوپرمان، جن کا تعلق اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، اس دعوے کے حوالے سے شک و شبے کا اظہار کرتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی کو اس پروگرام کا سرے سے کوئی علم ہی نہیں تھا:’’مجھے اس بات کی کوئی سمجھ نہیں آ رہی۔ ایک بات طے ہے کہ امریکا کے خفیہ اداروں کی جاسوسی کی سرگرمیاں مکمل طور پر قابو سے باہر ہو چکی ہیں۔‘‘

ایڈورڈ سنوڈنتصویر: The Guardian/Getty Images

گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت پسندانہ حملوں نے امریکا ہی نہیں، پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان حملوں کے ایک ماہ بعد اکتوبر ہی میں مغربی دفاعی اتحاد کے تمام رکن ممالک بشمول جرمنی نے اپنی اپنے خفیہ اداروں کے مابین اشتراک عمل کو بڑے پیمانے پر توسیع دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تب ہی سے جرمن اور امریکی انٹیلیجنس ادارے بھی آپس میں معلومات کا تبادلہ کر رہے تھے، جس کی ایک مثال دہشت گرد گروپ ’زاؤر لینڈ گروپ‘ کی ہے، جس کے دہشت گردانہ منصوبوں کا پتہ امریکی خفیہ اداروں نے انٹرنیٹ سے چلایا تھا اور پھر بر وقت جرمن اداروں کو خبر دار کر دیا تھا۔

خفیہ اداروں سے متعلقہ امور کے ماہر ایرش شمٹ این بوم نے ریڈیو ڈوئچ لانڈ فُنک سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا:’’خاص طور پر بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کے دوران نیٹو ممالک کے نگران محکمے ایک دوسرے کے ساتھ قریبی اور کامیاب تعاون کرتے ہیں۔ جرمن خفیہ ادارے BND کو بھی اس سے بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ساتھی خفیہ ادارے کی (بنیادی حقوق کی) خلاف ورزیوں کو بھی عام نہیں کیا جاتا۔‘‘

جرمن اداروں کو دیگر خفیہ اداروں بالخصوص امریکی اداروں پر اس لیے بھی انحصار کرنا پڑتا ہے کیونکہ خود یہ جرمن ادارے وسائل اور عملے کی کمی کا شکار ہیں۔

جرمن ہفت روزہ جریدہ ’ڈیئر اشپیگل‘ تواتر سے ایڈورڈ سنوڈن اور اُس کے انکشافات کو موضوع بنا رہا ہےتصویر: Spiegel Online

امریکی اداروں کی جانب سے جرمنی میں فون اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی نگرانی کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ سن 1968ء تک اتحادی افواج کا حصہ ہونے کی بناء پر بھی امریکیوں کو وسیع پیمانے پر نگرانی کے اختیارات حاصل تھے۔ جرمن مؤرخ یوزیف فوشے پوتھ بتاتے ہیں کہ عملاً امریکی اداروں کو یہ اختیارات بدستور حاصل ہیں کیونکہ 1968ء میں جرمن حکومت نے اس سلسلے میں امریکا کے ساتھ ایک خفیہ سمجھوتہ طے کر لیا تھا۔

ایڈورڈ سنوڈن کے مطابق NSA کا ایک ذیلی شعبہ ’فارن افیئرز ڈائریکٹوریٹ‘ کے نام سے قائم ہے، جہاں کام کو اس طور سے منظم کیا گیا ہے کہ سیاسی قیادت کسی بھی طرح کے ’جوابی ردعمل‘ سے محفوظ رہ سکے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومتوں کو خفیہ اداروں کے درمیان اشتراک عمل کا محض محدود طور پر یا سرے سے ہی علم نہیں ہو پاتا۔

اگلے چند روز میں جرمن حکومت اور خفیہ اداروں کے چوٹی کے عہدیداروں کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ ہنس پیٹرفریڈرش بھی واشنگٹن جا رہے ہیں، جہاں وہ NSA کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی وضاحت طلب کریں گے۔

رپورٹ: ڈیانا پیسلر / اے اے

ادارت: عدنان اسحاق

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں