امریکی اور یورپی پابندیوں کی انسانی قیمت: چالیس ہزار ہلاکتیں
1 اکتوبر 2019
امریکا کی وینزویلا پر مکمل پابندیوں کے بعد یورپی یونین بھی اس ملک پر نئی پابندیاں عائد کر چکی ہے۔ لیکن جن اقدامات کا مقصد صدر مادورو کو اقتدار سے باہر کرنا تھا، ان کے نتیجے میں اب تک چالیس ہزار انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔
اشتہار
وینزویلا کا المیہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپی یونین نے جن پابندیوں کے ساتھ اس ملک کے صدر نکولاس مادورو کو اقتدار سے علیحدہ ہونے پر مجبور کر دینے کا سوچا تھا، ان کا نشانہ عوام بن رہے ہیں۔ کارولینا سُوبیرو اپنی والدہ، بہن اور تین بچوں کے ساتھ وینزویلا کے دارالحکومت کراکس کی ایک غریب آبادی میں کچی اینٹوں کے بنے صرف دو بیڈ روم کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہیں۔
کارولینا کی سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر پانچ سال ہے، جو مرگی کی مریضہ ہے اور اسے باقاعدگی سے ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کارولینا اپنی اس بیٹی کے لیے ادویات حاصل کر ہی نہیں سکتیں۔
کارولینا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری اس بیٹی کو روز دورے پڑتے ہیں۔ اگر اسے ادویات دستیاب ہوں، تو ان دوروں کی شدت بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ لیکن ہم چونکہ اس کے لیے دوائیاں حاصل نہیں کر سکتے، اس لیے اب ڈاکٹر اسے ہسپتال بھیج دیں گے۔‘‘ یہ چھوٹی سی بچی پہلے ہر روز چار مختلف اقسام کی ادویات استعمال کرتی تھی۔ لیکن امریکی پابندیوں کی وجہ سے اب بہت سی ضروری ادویات وینزویلا میں درآمد نہیں کی جا سکتیں۔ اب اس بچی کو اس کی کل چار میں سے صرف ایک دوائی دستیاب ہوتی ہے اور وہ بھی کبھی کبھی، جو کہ انتہائی مہنگی بھی ہو چکی ہے۔
کارولینا کی جنجرلیس نامی بیٹی کے لیے اس ایک دوائی کی ایک پیکنگ صرف دس دن کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس کی قیمت تقریباﹰ آٹھ امریکی ڈالر یا 7.3 یورو کے برابر ہوتی ہے۔ بظاہر یہ کوئی زیادہ قیمت نہیں ہے۔ لیکن وینزویلا میں، جسے اپنی کرنسی بولیوار کی شرح تبادلہ میں حیران کن حد تک کمی کا سامنا ہے، یہ بہت بڑی قیمت ہے۔ کارولینا کہتی ہیں، ''میں یہ دوائی خریدنے کی متحمل تو ہو ہی نہیں سکتی۔ میں خوراک کے بدلے ادویات کا تبادلہ کر لیتی ہوں۔‘‘
تین لاکھ شہریوں کی زندگیاں خطرے میں
کارولینا کی پانچ سالہ بیٹی جنجرلیس وینزویلا میں اپنی نوعیت کی کوئی واحد مثال نہیں ہے۔ اس ملک میں تین لاکھ سے زائد مریض ایسے ہیں، جن کی زندگیاں ادویات تک رسائی نہ ہونے یا ناکافی دوائیوں کی وجہ سے خطرے میں ہیں اور اس صورت حال کی وجہ غیر ملکی پابندیاں ہیں۔
ان مریضوں میں 16 ہزار ایسے شہری بھی شامل ہیں، جنہیں گردے ناکام ہو جانے کی وجہ سے اپنا ڈائیالیسس کروانا پڑتا ہے۔ ادویات کے ضرورت مند کینسر کے مریضوں کی تعداد بھی 16 ہزار کے قریب ہے جبکہ 80 ہزار مریض ایسے ہیں، جن میں ایڈز کا باعث بننے والے ایچ آئی وی وائرس کی موجودگی کی تشخیص ہو چکی ہے۔ یہ سب اعداد و شمار امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم مرکز برائے معیشت اور پالیسی ریسرچ کی اس رپورٹ کا حصہ ہیں، جو اس سال اپریل میں جاری کی گئی تھی۔
اس سے بھی پریشان کن بات یہ ہے کہ وینزویلا میں امریکی اور یورپی پابندیوں کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل آئندہ دنوں میں کم ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگست میں امریکا نے وینزویلا کے خلاف اپنی پابندیوں کو 'مکمل اور بھرپور‘ بنا دیا تھا جب کہ گزشتہ ہفتے یورپی یونین نے بھی اس ملک کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کر دیا تھا۔
'پابندیوں کا شکار صرف حکومت نہیں مریض بھی‘
وینزویلا میں ماضی میں ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ شہریوں کو اینٹی وائرل ادویات حکومت کی طرف سے عشروں تک بالکل مفت فراہم کی جاتی تھیں۔ ان ادویات کی ملک گیر سطح پر تقسیم کے نگران عہدیدار مارسیل کوئنتانا کہتے ہیں، ''یہ پابندیاں صرف حکومت کے خلاف نہیں ہیں۔ یہ ان شہریوں کے خلاف بھی ہیں، جو ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہیں۔ یہ پابندیاں کینسر کے ان مریضوں کے خلاف بھی ہیں، جن کے لیے لازمی ادویات وینزویلا میں درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔‘‘
امریکا کی وینزویلا کے خلاف پابندیوں کا نفاذ پہلی مرتبہ باراک اوباما کے دور میں 2015ء میں ہوا تھا لیکن جب سے ٹرمپ انتظامیہ اقتدار میں آئی ہے، اس نے ان پابندیوں کو سخت تر کر دیا ہے۔ ان کے تحت وینزویلا سے، جہاں حکومت کی 90 فیصد آمدنی کا ذریعہ تیل کی صنعت ہے، تیل کی درآمد پر بھی پابندی لگائی جا چکی ہے۔
وینزویلا کا صدر کون؟ نکولس مادورو یا خوان گوائیڈو
جنوبی امریکی ملک وینزویلا اس وقت سنگین سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ مادورو حکومت اور پارلیمانی اسپیکر خوان گوائیڈو کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی بڑے خون خرابے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez/F. Parra
نکولس مادورو
نکولس مادورو وینزویلا کے چھیالیسویں صدر ہیں۔ انہوں نے منصب صدارت انیس اپریل سن 2013 کو سنبھالا تھا۔ وہ اپنے پیش رو صدر ہوگو چاویز کے نائب بھی تھے۔ اب مادورو ایک مرتبہ پھر متنازعہ انتخابی کے بعد دوبارہ صدر ضرور منتخب ہو چکے ہیں لیکن اس وقت اُن کی صدارت کو پارلیمانی اسپیکر خوان گوائیڈو نے چیلنج کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Quintero
وینزویلا کی فوج مادورو کے ساتھ ہے
وینزویلا کے وزیر دفاع ولادیمیر پیڈرو لوپیز نے ملکی ٹیلی وژن پر اپنی فوج کے اعلیٰ افسران کے ہمراہ واضح کیا ہے کہ تمام افسران صدر نکولس مادورو کے ساتھ کھڑے ہیں اور ملکی استحکام کے مخالف کیے جانے والے ہر اقدام کی مخالفت کریں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Robayo
نکولس مادورو کی عوامی رابطہ کاری
نکولس مادورو نے بھی جنوری سن 2019 کے دوران ایک عوامی جلسے میں شرکت کی۔ یہ جلسہ وینزویلا کے ڈکٹیٹر مارکوس پیریز خیمینیز کے اقتدار کے خاتمے کی اکسٹھ برس مکمل ہونے پر دارالحکومت کاراکس میں منعقد کیا گیا تھا۔ خیمینیز کے اقتدار کا خاتمہ تیئیس جنوری سن 1958 کو ہوا تھا۔
تصویر: Reuters/Miraflores Palace
مادورو کے حمایتی سیاستدان
نکولس مادورو کی حمایت میں اُن کے بعض حامی سیاستدان بھی متحرک ہیں۔ زیر نظر تصویر میں وینزویلا کی دستور ساز اسمبلی کے صدر ڈیئوس ڈاڈو کابیو ملکی دارالحکومت میں نکولس مادورو کی حمایت میں منعقدہ جلسے میں تقریر کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Torrealba
وینزویلا کی عوامی بے چینی
وینزویلا کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ اس بحران نے سارے ملک میں سماجی و معاشرتی مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ ہزاروں افراد ملکی حالات کے باعث ہمسایہ ممالک میں بطور مہاجر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ہنڈراس میں وینزویلا کے مہاجرین نکولس مادورو کے خلاف جلوس نکالے ہوئے۔
تصویر: Reuters/
خوان گوائیڈو
نوجوان سیاستدان خوان گوائیڈو وینزویلا کی پارلیمان کے اسپیکر ہیں۔ انہوں نے تیئیس جنوری سن 2019 کو ملک کا عبوری صدر ہونے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ان کے اعلان کی حمایت کی ہے۔ اب تک کئی ممالک نے گوائیڈو کو وینزویلا کا عبوری صدر تسلیم کر لیا ہے۔ ابھی جرمنی اور یورپی یونین نے انہیں عبوری صدر کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے لیکن وینزویلا کی اپوزیشن کی حمایت ضرور کی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Parra
گوائیڈو کی حمایت میں ’سبھی متفق‘
وینزویلا کے مختلف طبقوں نے عملی طور پر جلسے جلوسوں کی صورت میں خوان گوائیڈو کی حمایت کی ہے۔ ملک کی ساری اپوزیشن بھی نوجوان سیاستدان کے ہمراہ ہے۔
تصویر: Reuters/
عوام کاراکس کی سڑکوں پر تبدیلی کے منتظر
وینزویلا کا دارالحکومت خوان گوائیڈو کے حامیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہزار ہا افراد ملک کے مختلف حصوں سے دارالحکومت کی گلیوں اور سڑکوں پر کسی تبدیلی کے منتظر ہیں۔ مادورو مخالف جلوسوں کے شرکاء کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ اب تک ایسی جھڑپوں میں ہلاک شدگان کی تعداد ایک درجن سے زائد ہو چکی ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
تیئیس جنوری، اپوزیشن کی ریلی
وینزویلا میں سابق ڈکٹیٹر مارکوس پیریز کے زوال کا دن انتہائی اہم سیاسی بیداری کا نشان خیال کیا جاتا ہے۔ تیئیس جنوری سن 2019 کووینزویلا کے ہزارہا افراد ملکی اپوزیشن کی ریلی میں شریک ہوئے اور انہوں نے مادورو حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ اسی روز خوان گوائیڈو نے عبوری صدر ہونے کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Loureiro
خوان گوائیڈو: ایک نئی امید
تقریباً چھتیس سالہ خوان گوائیڈو کو وینزویلا کے سیاست دانوں کی نئی نسل کا نمائندہ قرار دیا گیا ہے۔ انہیں پانچ جنوری سن 2019 کو ملکی قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کیا گیا تھا۔ وہ طالب علمی کے دور سے ہی سیاست میں متحرک ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اُن کی مقبولیت اور عوامی حمایت وینزویلا میں کسی تبدیلی کا آئنہ دار ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
10 تصاویر1 | 10
بیرون ملک جملہ ریاستی اثاثے منجمد
ٹرمپ انتظامیہ کی 2017ء میں عائد کردہ پابندیوں کے تحت واشنگٹن نے وینزویلا کی سرکاری تیل کمپنی کے ایک امریکی ذیلی ادارے کو بھی اپنے قبضے میں لے رکھا ہے، جس کے اثاثوں کی مالیت آٹھ بلین ڈالر بنتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکی حکومت نے وینزویلا کی ملکیت کم از کم 50 بینکوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں رکھی گئی 5.5 بلین ڈالر کی رقوم بھی منجمد کر رکھی ہیں۔
لیکن اگر کراکس حکومت کو اس کے ان غیر ملکی اثاثوں تک رسائی حاصل ہو بھی جائے، تو بھی وہ کچھ نہیں کر سکے گی۔ اس لیے کہ امریکا نے ان تمام غیر ملکی اداروں پر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں بھی دے رکھی ہیں، جو وینزویلا کے ساتھ تجارت کریں گے۔
بیرون ملک سے فاضل پرزوں کی عدم دستیابی
وینزویلا کے دارالحکومت میں پانی کی ترسیل کے سرکاری ادارے کے نمائندوں کے مطابق 15 سے لے کر 20 فیصد تک عام شہریوں کو اپنے گھروں میں پانی تک رسائی حاصل نہیں۔ اس کا ایک سبب پانی کی ترسیل کا وہ نظام بھی ہے، جو پرانا ہو چکا ہے اور جس کے جدید بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ لیکن حکومت بیرون ملک سے وہ فاضل پرزے بھی نہیں خرید سکتی، جو ٹوٹے ہوئے پمپوں اور پائپوں کی مرمت کے لیے ضروری ہیں۔
’قلت، ہنگامہ آرائی،خشک سالی‘ وینزویلا مشکل میں
وینزویلا کا شمار تیل برآمد کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے اس ملک کو مالی مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔ گزشتہ برس کے دوران وینزویلا میں افراط زر میں 180 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EFE/M. Gutiérrez
افراط زر معیشت کو نگل رہی ہے
ضرورت سے زیادہ افراط زر سے وینزویلا میں کاروبار زندگی ایک طرح سے مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اس سے مقامی اور بین الاقوامی کاروباری اداروں کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔ کرنسی کی قدر مسلسل نیچے جا رہی ہے اور حکومت نے بولیواز کی امریکی ڈالر میں منتقلی کو مشکل بنا دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Ismar
اشیاء کی قلت
اس لاطینی امریکی ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کی بھی شدید قلت ہو چکی ہے۔ اکثر سپر مارکیٹوں کی الماریاں خالی دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
قطار در قطار
کھانے پینے کی اشیاء کی قلت کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں خریدنے کے لیے شہریوں کو لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ صرف مخصوص مقامات پر ہی ضروری اشیاء دستیاب ہیں۔ یہ کاراکس کے ایک غریب علاقے میں ایک دکان کے باہرکا منظر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Schemidt
دستخط جمع کیے جا رہے ہیں
وینزویلا میں حزب اختلاف کے رہنما چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک ریفرنڈم کرایا جائے اور اس مقصد کے لیے شہریوں کے دستخط جمع کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے انہیں کم از کم بیس لاکھ دستخطوں کی ضرورت ہے اور ابھی تک اٹھارہ لاکھ افراداس دستاویز پر دستخط ثبت کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ریفرنڈم کی اجازت
حزب اختلاف کے رہنما ہینریکے کاپرلس نے صحافیوں کو بتایا کہ ملکی الیکشن کمیشن نے ریفرنڈم کرانے کے اجازت دے دی ہے۔ لیکن صدر نکولس مادورو کی حکومت اس سلسلے میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ریفرنڈم کے لیے احتجاج
شہری حکومت سے ریفرنڈم جلد از جلد کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اکثر مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Bello
طلبہ احتجاج
احتجاج کے معاملے میں طلبہ بھی پیچھے نہیں ہیں۔ یہ لوگ ملک کی کمزور ہوتی ہوئی معیشت اور ریفرنڈم کو ملتوی کرنے کی حکومتی کوششوں کے خلاف سراپا احتجاج بننے ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Schemidt
خشک سالی
وینزویلا کے مسائل میں شدید خشک سالی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ملک کے ایک بڑے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم میں اب پانی کی بجائےصرف مٹی اور کیچڑ ہی دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
تباہی کی شدت
ملکی توانائی کا سب سے زیادہ انحصار گوری ڈیم پر ہے اور یہیں سے پانی کی دیگر ضروریات بھی پوری کی جاتی ہیں۔ اس کا شمار دنیا کے بڑے ڈیموں میں ہوتا ہے۔ تاہم پانی کا ذخیرہ کم ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے اور بجلی کی بھی شدت قلت ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
صحت کے شعبے کی زبوں حالی
اولیور سانچیز کی عمر آٹھ سال ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں میں جو کارڈ اٹھائے ہوئے ہے اس پر درج ہے، ’’میں صحت مند ہونا چاہتا ہوں، میں امن چاہتا ہوں میں ادویات چاہتا ہوں۔‘‘ سانچیز کاراکس میں ادویات کی عدم دستیابی کے خلاف کیے جانے والے احتجاج میں شریک تھا۔ وینزویلا میں آج کل ادویات بھی نایاب ہو چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Cubillos
صدر مادورو ہدف تنقید
وینزویلا کی معیشت میں یہ ابتری عالمی منڈی میں خام تیل کی گرتی ہوتی ہوئی قیمتوں سے ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اس ملک کی معیشت تقریباً پچاس فیصد سکڑ گئی ہے۔ عوام صدر نکولس مادورو کو بجلی اور اشیاء خوردو نوش کی قلت کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EFE/M. Gutiérrez
11 تصاویر1 | 11
کراکس کے زیادہ تر حصوں کو ہر ہفتے پینے کا پانی آبی ادارے کے ٹرکوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ لیکن اب ایسے زیادہ تر واٹر ٹرک بھی قابل استعمال نہیں رہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران کراکس میں واٹر ٹرکوں کی تعداد میں 75 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ وجہ: ان کی مرمت کے لیے ضروری آٹو موبائل پرزے دستیاب ہی نہیں ہیں۔
چالیس ہزار شہری ہلاکتیں
وینزویلا کے خلاف بیرونی پابندیوں کے ایسے ہی اثرات کی وجہ سے اس ملک میں اب تک 40 ہزار ایسے شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔
کارولینا سُوبیرو کہتی ہیں، ''انہیں کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان پابندیوں کے ذریعے صدر مادورو کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن نشانہ تو عوام بن رہے ہیں۔ اگر وہ (پابندیاں لگانے والے ممالک) واقعی وینزویلا کے لیے کوئی اچھا کام کرنا چاہتے ہیں، تو وہ، وہ سب کچھ نہ کر رہے ہوتے، جو وہ کر رہے ہیں۔‘‘
مائیکل فوکس (م م / ع ا)
دنیا میں غیر معمولی نظام الاوقات
شمالی کوریا نے اپنا معیاری وقت ایک مرتبہ پھر تبدیل کرتے ہوئے گھڑیوں پر سابقہ ٹائم بحال کر دیا ہے۔ اب دونوں کوریائی ملکوں کا معیاری وقت ایک ہے۔ تاہم ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔
سن 1949 میں چین میں اقتدار سنبھالنے والی کمیونسٹ پارٹی نے سارے ملک میں پائے جانے والے مختلف ٹائم زونز کو ختم کرتے ہوئے ایک معیاری وقت نافذ کر دیا تھا۔ بیجنگ عالمی معیاری وقت سے آٹھ گھنٹے آگے ہے۔ اب سارے چین میں یہی نظام رائج ہے۔ ایک ٹائم کے نفاذ کی وجہ سے اس ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے چینی باشندوں کو اپنے جسم کے اندر بھی نئے معیاری وقت کے مطابق تبدیلیاں لانی پڑی تھیں۔
تصویر: Reuters/China Daily
رات کے اُلُو
اسپین کے ڈکٹیٹر فرانسیسکو فرانکو نے سن 1840 میں اپنی غیرجانبداری کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے معیاری وقت کو سینٹرل یورپی ٹائم کے برابر کر دیا تھا۔ یہ وقت نازی جرمنی کے مساوی تھا۔ اس باعث اسپین میں سورج جلدی طلوع ہو جاتا ہے اور غروب بھی دیر سے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
ماضی سے نجات
جزیرہ نما کوریا میں بھی معیاری وقت میں تبدیلی سامنے آئی ہے۔ سن 2015 میں انتہائی کشیدگی کے دور میں شمالی کوریا نے اپنے معیاری وقت کو جنوبی کوریا سے علیحدہ کر دیا تھا۔ شمالی کوریائی حکومت نے وقت کی تبدیلی کو جزیرہ نما کوریا میں جاپانی نوآبادیاتی دور کے وقت کو تبدیل کرتے ہوئے اُس عہد سے چھٹکارہ حاصل کرنا قرار دیا تھا۔ جاپان جزیرہ نما کوریا پر سن 1910 سے 1945 تک حاکم رہا تھا ۔
تصویر: picture-alliance/MAXPPP
مختلف ہونے کا احساس
نیپال بھی وقت کے حوالے سے قدرے غیرمعمولی ہے۔ یہ ملک اپنے ہمسائے بھارت سے پندرہ منٹ آگے ہے اور اس طرے عالمی معیاری وقت سے اس کا فرق پانچ گھنٹے پینتالیس منٹ ہے، جو حیرانی کا باعث ہے۔ نیپالی حکومت نے اپنے معیاری وقت کو بھارت سے پندرہ منٹ آگے کر کے جو فرق پیدا کیا ہے، اُس نے نیپالی عوام کو اپنا علیحدہ وقت رکھنے کا احساس دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Neukirchen
بجلی بچاؤ، مستقبل کو بہتر کرو
وینزویلا کے صدر نکولاس مادُورو نے سن 2016 میں اپنے معیاری وقت کو تیس منٹ آگے کر دیا تھا۔ یہ ملک عالمی معیاری وقت سے چار گھنٹے پیچھے ہے۔ اس فیصلے سے مادورو نے اپنے پیشرو ہوگو چاویز کے سن 2007 کے فیصلے کو تبدیل کر دیا۔ مادورو نے يہ قدم بجلی بچانے کے مقصد سے اٹھايا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ایک طویل جست
وقت کے اعتبار سے سب سے بڑی جست بحر الکاہل کے ملک سموآ نے لگائی۔ سن 2011 میں سموآ نے معیاوی وقت میں ایک پورے دن کا فرق پیدا کر دیا۔ یہ پہلے سڈنی سے 21 گھنٹے پیچھے تھا اور پھر اس کے معیاری وقت کو سڈنی سے 3 گھنٹے آگے کر دیا گیا۔ انیسویں صدی میں سموآ کے بادشاہ نے امریکا سے وابستگی کے تحت معیاری وقت امریکا کے مساوی کر دیا تھا۔ اس تبديلی سے سموآ کے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔