امریکی جنرل سروس ایڈمنسٹریشن نے جو بائیڈن کو اقتدار کی منتقلی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس کا آزادانہ فیصلہ ہے۔ بائیڈن کی ٹیم کا کہنا ہے کہ ایجنسی نے انتخاب میں بظاہر جو بائیڈن کو فاتح تسلیم کر لیا ہے۔
اشتہار
امریکا میں 'جنرل سروس ایڈمنسٹریشن' (جی ایس اے) کی سربراہ ایملی مرفی کے ایک مکتوب کے مطابق نو منتخب صدر جو بائیڈن کو بتا دیا گیا ہے کہ ان کی اقتدار کی منتقلی کا عمل اب باضابطہ طور پر شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس خط کا مطلب یہ ہے کہ انتظامیہ نے پہلی بار صدر ٹرمپ کی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔ دو ہفتے قبل ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج کے بعد ہی تقریبا ًتمام مبصرین اور عالمی میڈیا نے جو بائیڈن کو فاتح قرار دیدیا تھا تاہم ٹرمپ نے اب تک اپنی شکست تسلیم نہیں کی ہے۔
جی ایس اے کی سربراہ ایملی مرفی کا کہنا ہے کہ انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے آزادانہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے۔ ''میں نے قانون اور دستیاب حقائق کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔ میرے فیصلے اور وقت کے تعلق سے مجھ پر وائٹ ہاؤس کے ایگزیکیٹیو حکام یا پھر جی ایس اے میں کام کرنے والوں کی جانب سے راست یا براہ راست کوئی دباؤ نہیں تھا۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میرے عزم میں تاخیر کے لیے بھی کسی جانب سے مجھے کوئی ہدایت نہیں ملی۔''
اس اقدام کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اب بائیڈن کی ٹیم کو آئندہ دو ماہ کے دوران اقتدار کی منتقلی تک ایک دفتر کے ساتھ ساتھ وفاقی فنڈز بھی مہیا ہوسکیں گے۔ اس کے بعد سے اب نو منتخب صدر جو بائیڈن اور ان کی نائب کمالہ ہیرس کو بھی اسی طرز پر نیشنل سکیورٹی بریفنگ ملنے لگے گی جیسے صدر ٹرمپ کو ہر روز دی جاتی ہے۔
امریکی قوانین کے مطابق رخصت پذیر صدر کی انتظامیہ استحکام کو یقینی بنانے میں مدد کے لیے اقتدار کی مکمل منتقلی تک نو منتخب صدر کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔
امریکی الیکشن، صورتحال کیا رنگ اختیار کرے گی؟
05:03
ٹرمپ نے بھی ابتدائی پروٹوکول کی اجازت دی
صدر ٹرمپ نے ابھی تک انتخابات میں اپنی شکست تسلیم نہیں کی ہے اور اپنی تمام قانونی چارہ جوئی جاری رکھنے کے منصوبوں کے باوجود ایملی مرفی کو اقتدار کی منتقلی کی اجازت دیدی ہے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''میں جی ایس اے میں ایملی مرفی کا ملک کے ساتھ ان کی ثابت قدمی اور لگن کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انہیں ہراساں کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے۔ اور میں ان کے، ان کے اہل خانہ یا پھر جی ایس اے کے ملازمین کے ساتھ ایسا ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا۔''
صدر ٹرمپ نے انتخابات کے حوالے سے اپنی قانونی چارہ جوئی جاری رکھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''ہمارا کیس مضبوطی سے جاری ہے، ہم اچھی طرح سے مقابلہ کرتے رہیں گے اور مجھے یقین ہے کہ ہم کامیاب بھی ہوں گے۔ بہرحال ملک کے بہتر مفاد کے لیے میں نے ایملی اور ان کی ٹیم سے ابتدائی پروٹوکول کے لیے جو بھی مناسب ہو وہ کرنے کی سفارش کی ہے اور اپنی ٹیم سے بھی ایسا ہی کرنے کی ہدایت دی ہے۔''
اشتہار
بائیڈن ٹیم نے اقتدار کی منتقلی کے آغاز کی تصدیق کی
نو منتخب صدر جو بائیڈن کی ٹیم نے بھی ان اقدامات کی تصدیق کر دی ہے۔ ٹیم کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا، ''جی ایس اے انتظامیہ نے نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نو منتخب نائب صدر کمالہ ہیرس کی انتخابات میں بظاہر کامیابی کی نشاندہی کر دی ہے اور آنے والی انتظامیہ کو اقتدار کی ہموار اور پرامن منتقلی کے لیے ضروری وسائل اور مدد فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔''
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
بائیڈن کی اقتدار منتقلی ٹیم کا کہنا ہے کہ نئی انتظامیہ سب سے پہلے کورونا وائرس کی وبا اور معیشت پر توجہ دے گی۔ اس ٹیم کے ڈائریکٹر یوحنا ابراہم نے ایک بیان میں کہا، ''آج کا فیصلہ عالمی وبا پر کنٹرول اور معیشت کو صحیح راستے پر دوبارہ واپس لانے جیسے اہم قومی مسائل کے حل کی سمت میں بہت اہم قدم ہے۔ یہ فیصلہ وفاقی انتظامی اداروں کے ساتھ منتقلی کے عمل کو باضابطہ طور پر شروع کرنے کے لیے ایک حتمی اقدام ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''آنے والے دنوں میں، منتقلی کے عہدیدار وبا سے متعلق اقدامات پر وفاقی حکام سے تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے مفادات کا مکمل احتساب کریں گے اور سرکاری اداروں کو کھوکھلا کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کے بارے میں بھی پوری طرح سے آگاہی حاصل کریں گے۔''