امریکی بل کے تحت، اعتدال پسند طالبان کے لئے مالی ادائیگیاں
29 اکتوبر 2009اس دفاعی بل میں عسکری کارروائیاں ترک کرنے والے طالبان کو ادائیگیوں کے لئے 1.3 بلین ڈالر مختص کئے گئے ہیں۔ امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کےسربراہ کارل لیون نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ بل اسی نوعیت کا ہے جس نوعیت کا ایک بل بش دور میں عراق میں اعتدال پسند عسکریت پسندوں کو ادائیگیوں کے لئے منظور کیا گیا تھا، اور جس کے ذریعے عراق میں معتدل عسکری کمانڈروں کو سماجی دھارے کا حصہ بنایا گیا تھا۔ لیون کے مطابق معتدل نظریات کے حامل طالبان تک پہنچنا، اوباما انتظامیہ کی اس منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کے ذریعے افغانستان میں آٹھ سال سے جاری جنگ ختم ہو سکتی ہے۔
لیون نے ایسے طالبان کی بھی حمایت کی جو عسکریت پسندی چھوڑنے پر آمادہ ہیں۔ لیون نے کہا کہ ایسے عسکریت پسندوں کو ماضی میں ان کے کردار کی معافی دے کر روزگار فراہم کیا جانا چاہئے۔
’’اس بل کے تحت ایسے طالبان جوعسکریت پسندی چھوڑ دیں گے، انہیں ان کے دیہات اور قصبوں کی حفاظت کے لئے رقوم فراہم کی جائیں گی۔‘‘
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ نے کہا:’’یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا عراق میں کیا گیا تھا"۔ لیون کے مطابق عراق میں ایسے فوری رد عمل پروگرام کے باعث امریکی فوجیوں پر حملوں میں بہت واضح کمی آئی تھی۔
’’اس پروگرام کے تحت 90 ہزار عراقی عسکریت پسندانہ سوچ ترک کر کے ہمارے حامی ہو گئے تھے۔"
اس بل کے تحت امریکی محکمہ دفاع کو رقوم یکم اکتوبر سے شروع ہونے والے رواں مالی سال کے لئے فراہم کی جائیں گی۔ اس سرمائے کے استعمال کا تمام تر اختیار محکمہ دفاع کے پاس ہو گا۔ اس قانون کے مسودے کی تیاری بھی محکمہ دفاع کےذریعے ہی عمل میں آئی تھی۔
اوباما انتظامیہ اس وقت افغانستان کے لئے امریکہ کی ایک نئی حکمت عملی کی تیاری میں مصروف ہے۔ اس سے قبل افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہ جنرل میک کرسٹل نے امریکی صدر سے افغانستان میں مزید فوجی دستوں کی تعیناتی کی درخواست کی تھی۔ میک کرسٹل کے بقول فوج اور وسائل کی کمی کی وجہ سے افغانستان میں جنگ عسکریت پسندوں کی فتح اور امریکی اور نیٹو دستوں کی شکست میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ صدر باراک اوباما نے افغانستان میں مزید امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔
امریکہ میں اس بل کےحوالے سے دو آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک حلقے کا خیال ہے کہ اوباما انتظامیہ کی اس منصوبہ بندی سے افغان جنگ میں اتحادی فوجیوں کے خلاف طالبان کی کارروائیوں میں واضح کمی آئے گی جبکہ دوسرے حلقے کی طرف سے اس منصوبےپر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ اس بل کے مخالفین اس مجوزہ قانون سازی کو اطالوی فوج کی طالبان سے مبینہ ڈیل سے تعبیر کر رہے ہیں۔
حال ہی میں برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ اٹلی کے حساس اداروں کے اہلکاروں نے 2008 ء میں کابل کے نواح میں واقع صوبہ ہرات کے ضلع سروبی میں اطالوی فوجی دستوں کی سلامتی کے لئے وہاں کے مقامی جنگجو کمانڈروں اور طالبان عسکریت پسندوں کو ہزاروں ڈالر بطور ’رشوت‘ ادا کئے تھے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ رقوم عسکریت پسندوں کو اس وقت تک اطالوی فوجیوں پر مسلح حملے روک دینے کے لئے دی گئی تھیں، جب تک کہ سروبی سے اطالوی دستے کسی دوسرے علاقے میں منتقل نہیں ہو جاتے۔
بعد ازاں 2008ء میں ہی سروبی میں اطالوی فوج کے جگہ فرانسیسی دستے تعینات کر دئے گئے تھے، جن کی آمد کے فوری بعد ہی طالبان کے ساتھ ایک بڑی جھڑپ میں 10 فرانسیسی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ نیٹو، فرانس اور اٹلی اس رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کو قطعی طور پر بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : مقبول ملک