’فائرنگ کا ایک بدترین واقعہ‘، امریکا میں پچاس افراد ہلاک
12 جون 2016امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں واقع پلس نامی ایک نائٹ کلب میں فائرنگ کے نتیجے میں پچاس افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
میئر بڈی ڈائر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترپن زخمی افراد میں سے متعدد کی حالت نازک ہے۔
ڈائر نے فائرنگ کے اس بہیمانہ واقعے کو ’ناقابل یقین‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے گورنر سے درخواست کر دی ہے کہ ریاست میں ہنگامی حالت نافذ کر دی جائے۔
بتایا گیا ہے کہ فائرنگ شروع ہونے کے بعد کلب میں موجود تیس افراد کو کامیاب طریقے سے نکال بھی لیا گیا تھا۔
ہفتے کی شب ہم جنس پرستوں میں مقبول پلس نائٹ کلب میں فائرنگ کرنے والے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ افغان نژاد امریکی شہری تھا۔ پولیس کے مطابق حملہ آور بھی ہلاک ہو چکا ہے۔
حملہ آور کا نام عمر متین بتایا گیا ہے۔ ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ ’مسلم انتہا پسندانہ کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔
اورلینڈو کی پولیس نے بتایا ہے کہ ایک ہنگامی سیل قائم کر دیا گیا ہے، جہاں لوگوں کو مطلوبہ معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق متعدد لاشیں ابھی تک کلب کے اندر ہی موجود ہیں، جنہیں نکالنے میں وقت درکار ہو گا۔
مقامی پولیس نے کہا ہے کہ شہر کی صورتحال قابو میں ہے اور لوگوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
اورلینڈو پولیس کے سربراہ جان مینا نے بتایا ہے کہ حملہ آور AR-15 طرز کی حملہ آور گن سے لیس تھا، جس نے کلب میں داخل ہوتے ہی فائرنگ کر دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ اس نے اکیلے ہی کیا۔
تحقیقاتی افسران نے ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ کارروائی ’داخلی دہشت گردی‘ کے تناظر میں پرکھی جا رہی ہے لیکن ایسے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا کہ کہیں حملہ آور ریڈیکلائزڈ تو نہیں ہو چکا تھا۔
ایف بی آئی نے کہا ہے کہ حملہ آور کی شناخت ہو چکی ہے اور اس کے گھر والوں کو بنیادی معلومات فراہم کرنے کے بعد اس کی شناخت ظاہر کی جائے گی۔
تاہم امریکی میڈیا رپورٹوں کے مطابق حملہ آور افغان مسلمان عمر متین تھا، جس کی عمر انتیس برس تھی۔ ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ اس کا رحجان ’اسلامی شدت پسندی‘ کی طرف مائل تھا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اس واقعے کی تحقیق اور مکمل چھان بین کے لیے فلوریڈا کی ریاستی حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات کے حوالے سے صدر اوباما کو مسلسل باخبر رکھا جا رہا ہے۔