’امریکی جاسوس کئی برس پوٹن کی سرکاری رہائش گاہ کا ملازم رہا‘
10 ستمبر 2019
روسی امریکی تعلقات کو اس بات سے دھچکا لگا ہے کہ ایک مبینہ امریکی جاسوس دو سال پہلے تک کریملن میں کام کرتا رہا تھا۔ روس نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ سی آئی اے کا یہ مبینہ جاسوس صدر پوٹن کی سرکاری رہائش گاہ میں کام کرتا تھا۔
اشتہار
روس میں ماسکو اور امریکا میں واشگٹن سے منگل دس ستمبر کو ملنے والی مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق امریکی ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹوں میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے کریملن میں کام کرنے والے ایک جاسوس کو روسی صدر پوٹن کے قریبی حلقوں تک رسائی حاصل تھی۔ اس امریکی جاسوس کو دو سال پہلے 2017ء میں اس لیے کریملن سے نکال لیا گیا تھا کہ تب اس کی اصل شناخت سامنے آ جانے کے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔
دوسری طرف روسی دارالحکومت میں صدر پوٹن کی کریملن کہلانے والی سرکاری رہائش گاہ کی طرف سے منگل کے روز تصدیق کر دی گئی کہ یہ مبینہ امریکی جاسوس ماسکو میں روسی صدارتی دفتر کی انتظامیہ کے لیے کام کرتا رہا تھا۔ کریملن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے کہا، ''اس شخص کو صدر پوٹن تک کوئی براہ راست رسائی حاصل نہیں تھی اور وہ ایک نچلے درجے کا سرکاری اہلکار تھا۔‘‘
روسی نیوز ایجنسی تاس نے پسیکوف کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس شخص کو 'کئی سال پہلے نوکری سے نکال دیا گیا تھا‘۔
اس کے ساتھ ہی کریملن کے ترجمان نے مزید کہا، ''اس شخص کی ملازمت کسی سینیئر سرکاری درجے کی پوزیشن نہیں تھی۔‘‘ دیمیتری پیسکوف نے یہ بھی کہا کہ انہیں ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ یہ شخص امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے لیے کام کرتا رہا تھا۔
'جاسوس کے بےنقاب ہو جانے کا خطرہ‘
دیمیتری پسیکوف نے یہ باتیں آج ماسکو میں اس پس منظر میں کہیں کہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این اور اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹوں کے مطابق یہ مبینہ جاسوس کریملن میں سی آئی اے کے لیے کام کرتا تھا، جسے 2017ء میں اس کی اصلیت سامنے آ جانے کے خوف اور اس کی سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث پیدا ہونے والے خدشات کے باعث وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔
امریکی میڈیا کا یہ دعویٰ چونکہ روس کے لیے سیاسی اور سفارتی سطح پر شرمندگی کا باعث سمجھا جا سکتا تھا، اس لیے کریملن کے ترجمان نے اس بارے میں کہا، ‘‘امریکی میڈیا میں کیے جانے والے یہ تمام دعوے کہ اسے جلدی سے نکال لیا گیا تھا، اور اسے کس سے بچانے کی کوشش کی گئی تھی، یہ سب ایسی کہانیاں ہیں، جو من گھڑت اور محض زیب داستاں کے لیے ہیں۔‘‘
'سی آئی اے کے قیمتی ترین روسی اثاثوں میں سے ایک‘
ان روسی دعووں کے برعکس سی این این اور نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹوں میں کہا ہے کہ سی آئی اے کا یہ اثاثہ (اس کے لیے کام کرنے والا مخبر) کئی سال تک روسی حکومتی ڈھانچے کے اندر موجود تھا اور اسے کریملن میں اعلیٰ حکام تک رسائی حاصل تھی۔‘‘
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Novosti/RIA Novosti/Kremlin
7 تصاویر1 | 7
نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس امریکی جاسوس کو روسی صدر پوٹن کے قرب و جوار تک ملنے والی رسائی اتنی اہم تھی کہ اس نے اس شخص کو 'سی آئی اے کے قیمتی ترین روسی اثاثوں میں سے ایک‘ بنا دیا تھا۔
جریدے نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس جاسوس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے مبینہ طور پر امریکی انٹیلیجنس اداروں کو صدر پوٹن کے اس حکم نامے سے متعلق شواہد بھی مہیا کیے تھے، جس میں مبینہ طور پر 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا ذکر کیا گیا تھا۔
اس جاسوس کو کریملن سے نکالا کیوں گیا
امریکی میڈیا رپورٹوں کے مطابق سی آئی اے نے اپنے اس اثاثے کو کریملن سے نکالنے کی کوشش 2016ء میں اس وقت کی تھی، جب امریکی صدارتی الیکشن میں روس کی مبینہ مداخلت کی بہت سی تفصیلات سامنے آ گئی تھیں اور یوں یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کریملن میں امریکا کا یہ جاسوس پرخطر انداز میں بےنقاب بھی ہو سکتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس جاسوس نے 2016ء میں اپنے 'کریملن سے نکلنے‘ سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم ایک سال بعد جب 2017ء میں سی آئی اے نے اس پر دوبارہ دباؤ ڈالا، تو اس نے یہ تجویز قبول کر لی تھی۔
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/chromorange
11 تصاویر1 | 11
خفیہ معلومات سے متعلق ٹرمپ کی 'لاپروائی‘
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے بتایا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے بقول اس امریکی جاسوس کو کریملن سے نکالنے کی وجوہات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے ارکان کی وجہ سے پیدا ہونے والے تحفظات بھی تھے۔ ان ذرائع کے مطابق ٹرمپ اور ان کی کابینہ نے خفیہ معلومات کو محفوظ رکھنے سے متعلق مبینہ لاپروائی کا مظاہرہ کیا تھا۔
ان میں سے ایک واقعہ 2017ء میں اس وقت پیش آیا تھا جب صدر پوٹن سے ایک نجی ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے ایک مترجم کے تحریری نوٹس بھی زبردستی اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔
دوسری طرف وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری اسٹیفنی گریشم نے سی این این کی اس حوالے سے رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے، ''سی این این کی رپورٹنگ نہ صرف یہ کہ غلط ہے بلکہ اس میں یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسانی جانیں خطرے میں پڑ جائیں۔‘‘
اس کے علاوہ خود سی آئی اے نے بھی ان امریکی میڈیا رپورٹوں کی تردید کی ہے۔
م م / ا ا / اے ایف پی، اے پی، روئٹرز
شاندار صدارتی محلات، اقتدار کے مراکز
روس میں کریملن، امریکا میں وائٹ ہاؤس اور فرانس میں ایلیزے پیلس شاندار سہی تاہم دنیا کے متعدد دیگر ممالک کے صدور کی رہائش گاہیں بھی اپنی شان و شوکت کے اعتبار سے کم نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kay Nietfeld
ترک صدر کا سیاہ ’سفید محل‘
انقرہ میں ترک صدر کے لیے نیا ’سفید محل‘ تعمیر کیا گیا ہے۔ اس عالی شان محل میں ایک ہزار کمرے ہیں، جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جہاں جاسوسی کے خفیہ آلات کارگر نہیں ہوتے اور ایسے بھی جو ایٹمی حملے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تاہم عدالت میں متعدد درخواستوں کے باوجود تعمیر کیے جانے والے اس محل کو ناقدین سفید محل کی بجائے سیاہ محل قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/M.Ali Ozcan
پیٹرول سرمایے کی چمک دمک
قازقستان کی مرکزی حکومتی عمارت رات بھر اپنا رنگ بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں صدارتی محل کو امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کی مکمل نقل میں تیار کیا گیا۔ خام مال کے اعتبار سے مالدار ملک قازقستان میں حکمران خاندان ملکی امراء کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
ترکمانستان کا خواب محل
اشک آباد میں قائم سنہرے گنبد والا صدارتی محل دارالحکومت کی سب سے شاندار عمارت ہے۔ یہ محل خود کو ترکمانستان کا بانی قرار دینے والے نیازوف نے تعمیر کیا تھا، جب کہ ان کے دور میں بطور وزیرصحت خدمات انجام دینے والے بردی محمدوف اب ملکی صدر ہیں۔ انہوں نے سن 2007 میں عہدہء صدارت سنبھالا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ملکی صدر ایک آمر کے تمام تر اختیارات سے لیس ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
کییف کی جاگیردارانہ رہائش گاہ
یہ عالی شان محل فروری میں ملک سے فرار ہونے والے یوکرائنی صدر وکٹور یانوکووچ نے تعمیر کرنا شروع کیا تھا۔ ان کے فرار کے بعد انٹرنیٹ پر اس محل کے حوالے سے تفصیلات سامنے آئیں۔ سن 2010 میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد یانوکووچ کا سب سے پہلا اقدام آٹھ ملین یورو مالیت کا ایک فانوس منگوانا تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/Genya Savilov
لامحدود شان و شوکت
سابق یوکرائنی صدر کا دور حکومت بدعنوانی کی انتہا سے عبارت ہے۔ انہوں نے بے انتہا سونا جمع کیا۔ ان کے محل میں اُن کے عامیانہ جمالیاتی ذوق کی مظہر بے شمار رنگ برنگی چیزیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اُنہوں نے قوم کے سینکڑوں ملین یورو اپنی جیبوں میں ڈال لیے۔ اقرباء پروری کی حد یہ کہ ان کے دونوں بیٹوں نے بھی اپنے والد کی وجہ سے بے پناہ پیسہ بنایا۔
تصویر: AFP/Getty Images/Yuriy Dyachyshyn
رومانیہ کی سج دھج
یہ انتہائی بڑی عمارت رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ کے مرکز میں واقع ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق 84 میٹر بلند اور دو لاکھ پینسٹھ ہزار مربع میٹر پر پھیلی اس عمارے میں تین ہزار کمرے ہیں اور یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی عمارت ہے، جسے 1984ء میں رومانیہ کے آمر حکمران چاؤشیسکو نے اپنے قتل سے پانچ سال پہلے تعمیر کیا تھا۔
تصویر: tony4urban/Fotolia.com
پیرس کی جگمگاہٹ
پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ایلیزے پیلس میں جا کر انسان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ کسی عجائب گھر میں آ گیا ہے۔ اس میں فن کے نادر نمونے اور تاریخی فرنیچر موجود ہے۔ اس کے تہ خانے میں کنکریٹ کی دیواروں اور فولادی دروازوں کے پیچھے فرانس کا ’جوہری کمانڈ سینٹر‘ قائم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Giancarlo Gorassini
ایران کی شاہی چمک
تہران کے شمال مشرق میں سعد آباد کے علاقے میں سابق ایرانی بادشاہ رضاشاہ پہلوی کے 18 محلات موجود ہیں۔ سن 1920ء سے انہوں نے پے در پے ان عمارات کو وسعت دی۔ یہ ایک طرف تو سرکاری کاموں کے لیے استعمال ہوتی رہیں اور دوسری جانب رضاشاہ پہلوی انہیں اپنی ذاتی رہائش گاہوں کے طور پر بھی استعمال کرتے رہے۔ گرین پیلس رضاشاہ پہلوی اور ان کی بیوی ثریا کی موسم گرما کی رہائش گاہ ہوا کرتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Orand-Viala
دوحہ کا عظیم محل
اس محل میں قطر کے بادشاہ شیخ حماد بن خلیفہ الثانی رہائش پذیر ہیں۔ مغرب کی جانب جھکاؤ رکھنے والے الثانی نے سن 1996ء میں الجزیرہ نامی نشریاتی ادارہ شروع کیا۔ اپنی خارجہ پالیسی کی وجہ سے رقبے کے اعتبار سے اس چھوٹے سے ملک نے حالیہ برسوں میں خاصی توجہ حاصل کی ہے، تاہم قطر پر مختلف اسلام پسندوں کی حمایت کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Rainer Jensen
اکرا کا محل
یہ عالی شان محل گھانا کے صدر کا ہے۔ گھانا کو افریقہ میں استحکام اور اقتصادی ترقی کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ملک کاکاؤ اور سونے کی برآمد کی وجہ سے مشہور ہے، تاہم اب بھی وہاں کے 23 ملین باشندے حکومتی سطح پر بدعنوانی کی وجہ سے غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPPA/Photoshot
متاثر کن فن
دنیا میں طاقت کے مراکز سمجھے جانے والے ممالک میں شاہکار فنی نمونے بھی ملتے ہیں۔ اس تصویر میں جرمن وزیرخارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر میکسیکو کے صدارتی محل میں ایک ایسے ہی شاہکار کو دیکھ رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bernd von Jutrczenka
جرمن صدارتی محمل، عوام سے قریب تر
یہ جرمن صدر کی سرکاری رہائش گاہ بیلے وو پیلس ہے۔ دریائے سپرے پر واقع یہ عمارت جدید و قدیم طرز تعمیر کا حسین ملاپ ہے۔ یہ دو منزلہ عمارت سن 1786 میں تعمیر کی گئی۔ موسم گرما میں یہاں ہونے والی تقریبات عام لوگوں میں خاصی مقبول ہیں۔