امریکی جج نے 1400 عراقیوں کی ملک بدری روک دی
25 جولائی 2017خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی ڈسٹرکٹ جج مارک گولڈ اسمتھ نے امیریکن سول لبرٹیز یونین کے وکلاء کی درخواست پر ان ڈیڑھ ہزار کے قریب عراقی شہریوں کی ملک بدری کے خلاف ابتدائی حکم امتناعی جاری کر دیا۔ ان وکلاء کا استدلال تھا کہ ملک بدر کیے جانے عراقی تارکین وطن کو واپس اپنے ملک میں ناروا سلوک کا سامنا ہو گا کیونکہ ان کا تعلق وہاں کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں سے ہے۔
گولڈ اسمتھ کا کہنا تھا کہ حکم امتناعی دینے کا مقصد زیر حراست عراقی تارکین وطن کو اس بات کا وقت دینا ہے کہ وہ ملک بدر کیے جانے کے معاملے کو وفاقی عدالت میں چیلنج کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک بدر کیے جانے کے احکامات ملنے کے بعد متاثرہ افراد کو مناسب قانونی مدد نہیں مل سکی ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے جن عراقی تارکین وطن کی ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں وہ گزشتہ کئی برسوں سے وہاں مقیم ہیں۔
ریاست مشیگن کے ڈسٹرکٹ جج مارک گولڈ اسمتھ کی جانب سے جاری کیے گئے 34 صفحات پر مشتمل حکم نامے اور رائے میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے ان افراد کو زائد وقت دینے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے افراد جنہیں اپنے ملک میں کسی نقصان یا موت تک کا خطرہ ہو سکتا ہے انہیں یہاں سے نکالے جانے سے پہلے عدالتی کارروائی کے لیے مناسب وقت مل سکے۔