1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مجھے کیوں نکالا‘ کا امریکی ورژن

7 جنوری 2021

کیپیٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کا دھاوا، پُرتشدد کارروائیوں میں چار افراد ہلاک، عالمی میڈیا پر دیکھے جانے والے مناظر ناقابل یقین مگر حقیقی ہیں۔ ان واقعات کو امریکی تاریخ کا سیاہ باب کہنا کافی نہیں۔

Deutsche Welle Redakteurin Kishwar Mustafa
تصویر: privat

 

واشنگٹن ڈی سی امریکا نہیں، ایک لحاظ سے پوری دنیا کے دارالحکومت کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں قائم امریکی پارلیمنٹ کی عمارت 'کیپیٹل ہل‘ دنیا کی محفوظ ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ وہاں عہدے سے رخصت ہونے والے صدر کے حامیوں نے عین اُس اجلاس کے وقت، جس میں آئندہ صدر کی انتخابی فتح کی توثیق ہونا تھی، جس تخریب کاری کا مظاہرہ کیا، اسے امریکی تاریخ کا ایک سیاہ دن قرار دیا جا رہا ہے۔

بچپن میں ہم نے دو فیملی گیمز بہت کھیلے ہیں۔ شطرنج اور لوڈو۔ لوڈو چار افراد کھیلا کرتے تھے اور شطرنج میں ظاہر ہے کہ دو کھلاڑی کھیلتے اور ارد گرد موجود افراد اپنے پسند کے کھلاڑی کا ساتھ دینے کے لیے اور اُس کی چالوں پر داد دینے کے لیے موجود ہوتے تھے۔ لوڈو سنگل بھی کھیلا جاتا ہے اور ڈبل بھی یعنی دو کھلاڑی بھی کھیل سکتے ہیں اور چار بھی۔ بحیثیت فیملی گیم لوڈو اس لیے زیادہ دلچسپ ہو جایا کرتا تھا کیونکہ دو کھلاڑیوں کی جو پارٹنر شپ ہوتی تھی وہ اپنے مخالف جوڑے کو ہرانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیا کرتی تھی۔ مجھے دونوں کھیل ہی پسند ہیں۔ ایک کا تعلق ذہانت سے ہے دوسرے کا قسمت سے۔ بحر حال دونوں ہی میں ایک فریق کو ہار تسلیم کرنا پڑتی ہے اور دوسرا فاتح قرار پاتا ہے۔ کھیل تو پھر کھیل ہے ہار جیت تو ہوتی ہی ہے لیکن لوڈو کے کھیل نے میرے ذہن پر کافی گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ ایسے کہ زیادہ تر میرے والد اور میری چچی پارٹنرز ہوتے تھے اور میری والدہ اور میرے چچا۔ دونوں پارٹنر شپ بہت مضبوط تھی مگر میری چچی جب بھی ہارنے لگتیں، ان کا موڈ اتنا آف ہو جاتا تھا کہ وہ لوڈو کا بورڈ پھاڑ دیا کرتی تھیں اور میرے چچا پر بے ایمانی کا الزام لگایا کرتی تھیں۔ آپس کی بات ہے، میرے چچا اکثر ہیرا پھیری کر جایا کرتے تھے۔ وہ کھیل کو انجوائے کرتے ہوئے کھیلنا چاہتے تھے جبکہ میری چچی کے لیے ہار جیت، زندگی موت کا مسئلہ تھا۔ قصہ مختصر ہر اگلے روز لوڈو کا بورڈ پھاڑ دیا جاتا اور نیا منگوانا پڑتا تھا۔ میرے والد اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ہم تمام بچوں سے بس اتنا کہا کرتے تھے،'' کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہے، اسے تسلیم کرنا ضروری ہے ورنہ انسان زندگی میں کچھ حاصل نہیں کر پاتا۔‘‘

آج میرے والد امریکا کی سب سے بڑی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں ایک انتہائی پُر فضا مقام کو ہمیشہ کے لیے اپنا گھر بنا چُکے ) وہاں مدفون ہیں( اور وہاں سے اُسی اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ' ڈونلڈ ٹرمپ سے کہہ رہے ہیں،'' ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے، اسے تسلیم کر لینا چاہیے، ورنہ انسان اپنا وقار کھو دیتا ہے اور دوسروں کے لیے ایک بُری مثال چھوڑ جاتا ہے۔‘‘

مجھے کیوں نکالا کا امریکی 'ورژن‘

کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر ایک جملہ طنز و مزاح کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ '' مجھے کیوں نکالا‘‘۔ اگر کسی کو نہ پتا ہو کہ یہ کس کے الفاظ ہیں تو بھی سننے والے کے ذہن میں ایک انتہائی بچگانا شخصیت کا خاکہ بن جاتا ہے۔ جی یہ الفاظ ہیں جنوبی ایشیا کی ریاست پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب کے۔ ایک ایسا ملک جس کا شمار نیم ترقی پذیر، کافی حد تک پسماندہ اور سیاسی عدم استحکام کے شکار ملکوں میں ہوتا ہے۔ جہاں سیاسی و سماجی شعور کا فقدان تو ہے ہی مگر اقتدار کی ہوس والوں میں دیانتداری اور عزت نفس بھی ناپید ہے۔ وہاں اگر سیاستدانوں کا یہ حال ہے کہ اپنی تمام تر بدعنوانیوں اور نااہلیتوں کے باوجود اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش انہیں کھا رہی ہے، وہ معاشرے کے ان گنت انسانوں کی سوچ کو پراگندہ کرتے ہوئے اپنی بُری مثال کے ذریعے  انسانی ذہنوں کو آلودہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب دنیا کو سبق پڑھانے والے، اقوام عالم کی قسمتوں کا فیصلہ کرنے والے، با بانگ دہل نسلی ، مذہبی اور فرقہ وارانہ امتیاز کو اپنا سیاسی ایجنڈا بنانے والے ' مہذب معاشروں‘ کے رہنما اگر ایسا ہی کریں تو اسے کیا نام دیا جائے؟

حالیہ امریکی صدارتی انتخابات کے بعد سے اب تک صدارتی عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلیکن سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ نے کوئی حربہ باقی نہیں چھوڑا اپنی شکست اور بائیڈن کی فتح کے فیصلے کو رد کرنے کا۔

بروقت وار کی کوشش مگر نشانہ خطا

سال 2020 ء کا آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسے اعلان سے کیا تھا جس کا مقصد امریکی قوم کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پائے جانے والے اپنے اتحادیوں، مغربی قوتوں اور ' ایک خاص لابی‘ کی خوشنودی حاصل کرنا تھا، ساتھ ہی امریکا کا کردار بحیثیت ' ورلڈ پولیس‘ ایک بار پھر اجاگر کرنا تھا۔ 3 جنوری 2020 ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی سمیت 9 افراد کی عراق میں امریکی ڈرون کے نتیجے میں ہلاکت کی '' خوشخبری‘‘ سناتے ہوئے فاخرانہ لہجے میں کہا تھا کہ وہ، ان کے بقول 'دہشت گردوں‘ کو انجام تک پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ 2020ء نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ جیسے دائیں بازو کے انتہا پسندوں بلکہ امریکی قوم کے لیے کیسا ثابت ہوا۔ ٹرمپ کورونا جیسی ہلاکت خیز وبا کی حقیقت کو ماننے سے پہلو تہی کرتے رہے۔ نتیجہ امریکا میں ہونے والی اموات اور اس ملک کو پہنچنے والے اقتصادی و سماجی نقصانات تمام دنیا کے سامنے ہے۔ نسل پرستی کو ہوا دینا، ٹرمپ کا شعار رہا جس کے سبب خود امریکا کے اندر سے اُٹھنے والی تحریک نے جو بائیڈن کی شکل میں امریکی عوام کے لیے ایک بار پھر امید کی کرن پیدا کر دی ہے۔ جسے ٹرمپ قبول نہیں کر پا رہے۔

ایک کالی بھیڑ کی نشاندی ضروری

2021 ء کے آغاز پر جب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے ستارے ڈوبتے نظر آنے لگے اور اپنی آخری امیدوں کے دم توڑنے کا احساس بڑھنے لگا تو چلتے چلتے انہوں نے ایران پر مزید پابندیوں کا اعلان ٹھیک ایسے وقت سے کیا جب وہ جو بائیڈن کے آگے ہار ماننے سے انکار کا آخری لمحوں تک مظاہرہ کرنے کا منصوبہ بنا چُکے تھے۔ وائٹ ہاؤس کے سامنے انہوں نے اپنے ہزاروں حامیوں کو شہ دی کہ وہ کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا،'' ہم بُلشٹ، نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘

آناً فاناً کیپیٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کی جو یلغار ہوئی اُس کی مثال امریکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لاء اینڈ آرڈر کے نگران اور پولیس  کی بڑی تعداد کی موجودگی میں پُر تشدد ہجوم نے کیپیٹل ہل میں قانون سازوں کے چیمبرز پر حملہ کیا۔ وہاں داخل ہو گئے۔ پولیس کے ساتھ ان کا تصادم ہوا اور چار افراد اپنی جان سے گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی یہی کہہ رہے ہیں،'' الیکشن کے نتائج فسق ہیں، میں نہیں مانتا۔‘‘ با الفاظ دیگر '' مجھے کیوں نکالا‘‘۔

'مہذب معاشروں‘ کے رہنماؤں کو یہ زیب نہیں دیتا مسٹر ٹرمپ۔ آپ اور آپ کے چند ریپبلکن ساتھیوں کو حالیہ انتخابات کے نتائج تسلیم کر لینا چاہیے۔ کیا ہوا چار سالہ مدت صدارت ہی تو ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کی بساط پر کسی اور کو بھی کھیلنے دیں۔ دیکھیں تو یہ سب محض اک کھیل ہی۔ بُش گئے، اوباما آئے، اوباما گئے ٹرمپ آئے، ٹرمپ جا رہے ہیں اور بائیڈن کی آمد ہے، کل کو انہیں بھی رخصت ملے گی اور پھر کوئی اور آ جائے گا۔ یہ آنا جانا چلتا رہے گا لیکن ایک حقیقت برقرار رہے گی، '' امریکی اسٹیبلشمنٹ اور ایڈمنسٹریشن کی پالیسی ہمیشہ یکساں رہے گی۔‘‘ لوڈو کا بورڈ یا شطرنج کی بساط ٹوٹ پھوٹ جائے تو نئی خریدی جا سکتی ہے، مگر کیپیٹل ہل کی عمارت بہت مضبوط ہے، اس کی تعمیر پر جتنا خرچ آیا ہو گا شاید اتنی رقم کسی غریب، پسماندہ افریقی، ایشیائی ملک کے عوام کی بھوک ختم کرنے کے لیے کافی ہو لیکن ایسا کیونکر ہو؟ کیپیٹل ہل کی حفاظت کیجیے ابھی تو یہاں اور بھی بہت سے اہم فیصلے ہونا ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

کشور مصطفیٰ

    

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں