امریکا کے مغربی ساحلی علاقوں میں لگی جنگلاتی آگ کے سبب ہلاکتوں کی تعداد 30 سے بڑھ چکی ہے۔ ریاست اوریگن کے حکام کے مطابق درجنوں دیگر افراد لاپتہ بھی ہیں، جن کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔
اشتہار
دوسری طرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک نے ایسی پوسٹ ہٹا دی ہیں جن میں اس آگ لگنے کی وجوہات کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی جا رہی تھیں۔
آگ بھجانے والا عملہ ہفتہ اور اتوار کی درمیان شب بھی امریکا کے مغربی ساحلی علاقوں میں لگی جنگلاتی آگ کو بجھانے کی کوششوں میں مصروف رہا۔ دوسری طرف اس آگ کے سبب ریاست کیلیفورنیا، اوریگن اور واشنگٹن میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر کم از کم 30 تک پہنچ گئی ہے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ابھی تک درجنوں لاپتہ افراد کی تلاش کا کام جاری ہے۔
اوریگن کی ریاستی گورنر کیٹ براؤن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ریاستی ایمرجنسی حکام 'بڑی تعداد میں ہلاکتوں‘ کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔
ریاست کیلیفورنیا میں رواں برس کے شروع سے اب تک لگنے والی جنگلاتی آگ کے مختلف واقعات میں 13000 مربع کلومیٹر کا رقبہ جل چکا ہے۔ یہ رقبہ گزشتہ برس لگنے والی آگ کی نسبت 26 گنا بڑا ہے۔
اسی طرح ریاست اوریگن میں 4,000 مربع کلومیٹر اور واشنگٹن میں 2,400 مربع کلومیٹر کے رقبے پر لگے جنگلات اس آگ کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
ہزارہا لوگوں کی نقل مکانی
ان تین امریکی ریاستوں میں لگی آگ کے سبب بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔ صرف ریاست اوریگن میں 40 ہزار افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے جبکہ کیلیفورنیا میں بھی ہزاروں لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے ہیں۔
اس آگ کو بھجانے والے عملے کو یقین ہے کہ اختتام ہفتہ پر بہتر موسمی صورتحال کے سبب انہیں آگ پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ تاہم کچھ مقامات پر لگی آگ پر جن میں اوریگن کے جنوبی حصے میں لگی آگ بھی شامل ہے، بالکل بھی قابو نہیں پایا جا سکا۔
غلط معلومات پر فیس بُک کا کریک ڈاؤن
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک نے ایسی غلط معلومات پر مبنی پوسٹس ہٹانا شروع کر دی ہیں جن میں ریاست اوریگن میں لگنے والی آگ کو انتہائی دائیں بازو کے گروپوں یا پھر انتہائی بائیں بازو کے گروپوں کی کارروائی قرار دیا جا رہا تھا۔ اس بات کی تصدیق فیس بُک کے ایک ترجمان نے بھی کی ہے۔
کیلیفورنیا کی جنگلاتی آگ
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے جنگلوں میں آگ لگنا ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے رواں برس ریاستی محکمہ برائے جنگلات نے آگ سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر اختیار ضرور کی ہیں لیکن آگ پھر بھی بھڑک اٹھی ہے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا میں لگی آگ سے جلتے درختوں کے انگارے بکھرے ہوئے ہیں۔ ان انگاروں کے بیچ سے گزرتی اِکا دُکا کاروں کو چلانے والے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/N. Berger
فائر بریگیڈز کے ساتھ ساتھ ہیلی کاپٹر کا استعمال
شمالی کیلیفورنیا میں لگی جنگلاتی آگ کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ پہاڑی علاقوں پر آگ بجھانے کے لیے ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کم از کم انچاس رہائشی عمارتیں جل کر راکھ ہو چکی ہیں۔
کیلیفورنیا کے مقام سانتا کلاریٹا میں جنگلاتی آگ چوبیس اکتوبر کو لگی تھی۔ اس نے انتہائی تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع کر دیا اور قریبی انسانی بستیوں کے لیے خطرے کا سبب بن گئی۔ حکام نے پچاس ہزار افراد کو فوری طور پر منتقل ہونے کی ہدایت کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/The Orange County Register/SCNG/J. C. Maher
خشک موسم اور تیز ہوا
جنگلاتی آگ کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ خشک موسم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تیز ہوا بھی آگ کے شعلوں کو منتقل کر رہی ہے۔ ہوا سے شعلوں کی منتقلی سے دوسرے سوکھے درخت بھی آگ کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں۔ خشک جھاڑیاں بھی آگ کی شدت بڑھانے اور پھیلانے میں مددگار ہیں۔ ابھی تک آگ پر قابو پانے کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Jose Sanchez
لوگ ہوشیار رہیں
اس جنگلاتی آگ کے مزید پھیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ فائر بریگیڈز کے کارکن اسے بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بظاہر تیز ہوا تمام انسانی کوششوں کو ابھی تک ناکام بنائے ہوئے ہے۔ انتظامی اہلکاروں نے مختلف علاقے کے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ چوکس رہیں اور محفوظ مقامات کی جانب منتقلی کی اطلاع پر فوری عمل کریں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Jose Sanchez
فائر بریگیڈز کی کوششیں
خشک جھاڑیوں اور سوکھے درختوں میں لگی آگ سدا بہار درختوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ فائربریگیڈز کا عملہ جدید خطوط پر آگ بجانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ کم از کم شمالی کیلیفورنیا کی پچیس کاؤنٹیوں کے جنگلوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے جنگلاتی علاقوں میں ہر سال آگ لگنا اب معمول ہوتا جا رہا ہے۔ اکتوبر کے بعد خشک موسم کی وجہ سے سن 2018 میں لگنے والی آگ کو شدید اور خوفناک ترین قرار دیا گیا تھا۔ پچاسی انسانی جانیں اس آگ کی نذر ہو گئی تھیں۔ کیلیفورنیا کے خزانے کو بارہ بلین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/N. Berger
7 تصاویر1 | 7
اوریگن کے ریاستی حکام اس طرح کی غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش میں ہیں کہ شدت پسند گروپوں نے یہ آگ جانتے بوجھتے لگائی۔
قبل ازیں فیس بُک نے انتباہ جاری کیا تھا کہ غلط معلومات پر مبنی پوسٹس کو ہٹا دیا جائے گا، تاہم اب اس نے یہ سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2020ء کے دوران آگ لگنے کے ان واقعات میں اضافے کی اصل وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔
سن 2019ء: جنگلات کی آگ کا سال
ختم ہونے والے سال سن 2019 کے دوران دنیا کے کئی ممالک کے جنگلات میں آگ بھڑکی۔ اس بھڑکنے والی آگ نے شدت اختیار کرتے ہوئے وسیع جنگلاتی رقبے کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ ایک نظر ایسے بدترین واقعات پر
تصویر: Reuters/S. N. Bikes
زمین کے پھیپھڑوں میں لگنے والی آگ
برازیل میں دنیا کے سب سے وسیع رقبے پر پھیلے بارانی جنگلات ہیں۔ ان میں سن 2019 کے دوران لگنے والی آگ مختلف علاقوں میں کئی ہفتوں تک جاری رہی۔ برازیل کے بارانی جنگلات میں آگ لگنے کے کئی واقعات رونما ہوئے اور اگست میں لگنے والی آگ کو انتہائی شدید قرار دیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جنگلوں میں رہنے والے کسانوں کی لاپرواہیوں سے زیادہ تر آگ لگنے واقعات رونما ہوئے۔
تصویر: REUTERS
جنگلاتی کثیرالجہتی بھی آگ کی لپیٹ میں
برازیل کے صرف بارانی جنگلاتی علاقوں میں آگ نہیں لگی بلکہ جنوب میں واقع ٹراپیکل سوانا جنگلات کو بھی آگ کا سامنا کرنا پڑا۔ برازیلی علاقے سیراڈو کے ٹراپیکل جنگلات اپنے تنوع کی وجہ سے خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان میں کئی نایاب جنگلاتی حیات پائی جاتی ہیں۔ سن 2019 میں لگنے والی آگ سے اس جنلگلاتی علاقے کا وسیع رقبہ خاکستر ہو گیا۔ خاص طور پر سویا زرعی رقبے کو بہت نقصان پہنچا۔
تصویر: DW/J. Velozo
ارونگ اوتان بندروں کے گھر بھی جل گئے
انڈونیشی علاقے سماٹرا اور بورنیو کے جنگلوں میں لگنے والی آگ نے چالیس ہزار ایکڑ رقبے کو جلا ڈالا۔ اس آگ نے معدوم ہوتی بندروں کی نسل ارونگ اوتان کے گھروں کے علاقے کو بھی راکھ کر دیا۔ اس نسل کے کئی بندر آگ کی لپیٹ میں آ کر ہلاک بھی ہوئے۔ آگ نے ان بندروں کے نشو و نما کے قدرتی ماحول کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس آگ پر بڑی مشکل سے قابو پایا گیا۔
تصویر: REUTERS
مرطوب گیلی زمینیں آگ سے سوکھ کر رہ گئیں
برازیل میں مرطوب گیلی زمینوں کا حامل سب سے بڑا رقبہ پایا جاتا ہے۔ اس علاقے کا نام پانٹانال ہے۔ اس کے جنگلاتی رقبے پر لگنے والی آگ نے نم زدہ زمینوں کو خشک کر دیا اور قدرتی ماحول کو بڑی تباہی سے بھی دوچار کیا۔ برازیلی علاقے سے یہ آگ بولیویا کے ویٹ لینڈز میں داخل ہوئی اور پیراگوئے کے نم زدہ علاقوں کی ہریالی کو بھی بھسم کر ڈالا۔ بولیویا میں بارہ لاکھ ہیکٹر مرطوب گیلی زمین والا علاقہ آگ سے متاثر ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Raldes
کیلیفورنیا کی جنگلاتی جھاڑیوں کی آگ
سن 2019 میں امریکی ریاست کی جنگلاتی آگ نے ایک وسیع رقبے کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ اس آگ کی وجہ سے جنگلات میں قائم پرانے بنیادی انتظامی ڈھانچے کا تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ آگ کے پھیلاؤ کی وجہ خشک اور گرم موسم کے ساتھ ساتھ تیز ہوا کا چلنا بھی بنا۔ آگ کی وجہ سے بے شمار مکانات بھی جل کر رہ گئے۔ ہزاروں لوگوں کو محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونا پڑا۔ دس لاکھ افراد کو بغیر بجلی کے کئی دن زندگی بسر کرنا پڑی۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/H. Gutknecht
قطب شمالی میں بھی آگ بھڑک اٹھی
سن 2019 کے دوران قطب شمالی میں شمار کیے جانے والے مختلف علاقوں میں بھی آگ لگنے کے واقعات نے ماحول دوستوں کو پریشان کیا۔ سائبیریا میں تین مہینوں کے درمیان مختلف مواقع پر لگنے والی آگ نے چالیس لاکھ ہیکٹرز کے جنگلات جلا ڈالے اور دھواں یورپی یونین سمیت سارے علاقے پر پھیل گیا۔ آگ بجھانے کے لیے سائبیریا میں روسی فوج کو تعینات کرنا پڑا۔ گرین لینڈ اور کینیڈا کے قطب شمالی کے علاقے بھی آگ سے محفوظ نہ رہے۔
تصویر: Imago Images/ITAR-TASS
جنگلاتی آگ نے کوالا بھی ہلاک کر دیے
آسٹریلیا کی جنگلاتی آگ اب ایک بحران کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ آگ نے لاکھوں ایکڑ رقبے کو جلا ڈالا ہے۔ چار انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ ایک ہزار کے قریب کوالا ریچھ بھی جل مرے ہیں۔ کوالا ریچھ کو معدوم ہونے والی نسل قرار دیا جاتا ہے۔ سن 2019 کی آگ کو انتہائی شدید قرار دیا گیا ہے۔ اس کے دھوئیں نے سڈنی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ حکومت نے اوپن ڈور کھیلوں کی سرگرمیوں کو روک بھی دیا تھا۔