امریکی جنگی جہازوں نے چینی ’جاسوس غبارے‘ کو مار گرایا
5 فروری 2023
امریکہ نے اتوار کو ایک مشتبہ چینی جاسوس غبارے کو مار گرایا ہے۔ یہ ’جاسوس غبارہ‘ جنوبی کیرولینا کے قریب سمندر میں گرا ہے۔ اب امریکی حکام پانی سے ملبہ اور مشتبہ نگرانی کے آلات کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اشتہار
امریکی لڑاکا طیاروں نے چین کے مشتبہ غبارے کو گولیوں سے نشانہ بناتے ہوئے مار گرایا ہے۔ اس مشتبہ غبارے کا پتہ کئی دن پہلے لگایا گیا تھا لیکن تب یہ بہت اونچائی پر تھا اور اگر وہاں اسے مار گرایا جاتا تو اس کا ملبہ خطرے کا باعث بنتا۔ اس واقعے کے بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنا دورہ بیجنگ منسوخ کر دیا تھا۔
امریکی صدر کے احکامات
امریکی صدر جو بائیڈن نے احکامات دیے تھے کہ اس مشتبہ غبارے کو جلد از جلد مار گرایا جائے لیکن انہیں سکیورٹی حکام کی جانب سے مشورہ دیا گیا تھا کہ اسے تباہ کرنے کا سب سے مناسب وقت وہ ہو گا، جب یہ پانی کے اوپر سے گزرے گا۔ امریکی فوجی حکام کا کہنا تھا کہ جب اس کی بلندی 60 ہزار فٹ ہو گی تو اس وقت اسے نیچے گرانا عام لوگوں کے لیے کوئی خطرے کا باعث نہیں ہو گا۔
چین کا سخت جواب
بیجنگ حکومت نے الزام لگایا کہ امریکی سیاست دان اور میڈیا چین کو بدنام کرنے کے لیے اس صورت حال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ چین نے کہا ہے کہ اس غبارے کا استعمال شہری موسمیاتی معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا گیا تھا لیکن ''تیز ہواؤں اور اس کی محدود کنٹرول صلاحیت کی وجہ سے‘‘ یہ اپنے راستے سے بھٹک گیا تھا۔
چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے،''غیر متوقع حالات کی وجہ سے غبارے کے غلطی سے امریکہ میں داخل ہو جانے پر چین کو افسوس ہے‘‘۔
چینی وزارت نے اپنے بیان میں مزید کہا، ''چین نے ہمیشہ بین الاقوامی قانون کی سختی سے پاسداری اور تمام ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کیا ہے‘‘۔
چین نے امریکی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ ایسی ''مزید کارروائیاں کرنے کا حق‘‘ محفوظ رکھتا ہے۔ بیجنگ حکومت کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے ''واضح حد سے زیادہ ردعمل دکھایا گیا ہے اور یہ بین الاقوامی طریقہ کار کی سنگین خلاف ورزی ہے‘‘۔
چین کی وزارت خارجہ نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا ہے، ''چین متعلقہ کمپنی کے جائز حقوق اور مفادات کو مضبوطی سے برقرار رکھے گا اور ساتھ ہی اس کے جواب میں مزید اقدامات کرنے کا حق بھی محفوظ رکھے گا‘‘۔
اشتہار
جاسوس غبارے ایک پرانا طریقہ
امریکی ریاست مونٹانا کی فضا میں اس چینی غبارے کی موجودگی واشنگٹن انتظامیہ کے لیے اس لیے پریشانی کا باعث ہے کیوں کہ اسی مقام پر امریکہ کے بلیسٹک میزائل نصب ہیں۔ انتہائی بلندی پر اڑنے والے غبارے جاسوسی اور نگرانی کے لیے ایک پرانا اور آزمودہ طریقہ ہیں۔ جدید غبارے زمین کی سطح سے چوبیس تا سینتیس کلومیٹر کی بلندی پر اڑ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ عام تجارتی جہاز زمین سے دس سے بارہ کلومیٹر اور لڑاکا طیارے اٹھارہ سے بیس کلومیٹر کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ میں جاپان نے ان غباروں کا استعمال امریکہ پر بمباری کے لیے کیا تھا جب کہ امریکہ اور سوویت یونین سرد جنگ کے دنوں میں یہ طریقہ ایک دوسرے کے خلاف بھی استعمال کرتے رہے۔
حال ہی میں ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون، غباروں پر مبنی نگرانی کا ایک نظام بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے پاس امریکی نگرانی کے زیادہ جدید طریقےموجود ہیں، تاہم غبارے کا استعمال یہ پیغام دینا ہو سکتا ہے کہ چین نہایت آسانی سےامریکی فضائی حدود میں داخل ہو سکتا ہے۔
ا ا / ر ب (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔