امریکی حکام سرحدوں پر سیاسی پناہ کو محدود بنا رہے ہیں
9 نومبر 2018
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے متعارف کرائے گئے نئے قوانین کے مطابق غیر قانونی طور پر میکسیکو سے امریکی سرحد عبور کرنے والے افراد کو سیاسی پناہ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس وقت سات ہزار مہاجرین امریکا کی جانب مارچ کر رہے ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جمعہ کے روز ایک سرکاری بیان جاری کریں گے ، جس میں اعلان کیا جائے گا کہ امریکا میں ایسے افراد کو سیاسی پناہ کی اجازت نہیں دی جائے گی جو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے ملک میں داخل ہوں گے۔
امريکا ميں داخلی سلامتی سے متعلق محکمے ’ڈپارٹمنٹ آف ہوم لينڈ سکيورٹی‘ اور ’ڈپارٹمنٹ آف جسٹس‘ کی جانب سے جاری کردہ احکامات کا مقصد دو ہزار میل طویل امریکی میکسیکو سرحد عبور کرنے والے تارکین وطن کو روکنا ہے۔ امریکی جسٹس ڈپارٹمنٹ کے مطابق،’’ملک میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والے افراد جان بوجھ کر اور رضاکارانہ طور پر قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘‘
موجودہ امریکی قوانین کے مطابق تارکین وطن ملک میں داخلے ہونے کے ایک سال کے عرصے کے دوران سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا سکتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظرکہ یہ تارکین وطن ملک میں کس طرح داخل ہوئے ہیں۔ تاہم نئے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد سے غیر قانونی تارکین وطن افراد کو پناہ حاصل کرنے کے لیے پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واضح رہے یہ اقدام ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب وسطی امريکی ممالک سے ہزاروں تارکين وطن تین مختلف قافلوں کی صورت میں میکسیکو کے راستے امريکی سرحد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین سے منسلک قانونی ماہرین امریکی صدر کی مہاجرین مخالف نئی پالیسی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ جنیوا میں ’یو این ایچ سی آر‘ کے ترجمان بابر بلوچ نے بتایا کہ قانونی ماہرین اس پالیسی کے طویل دستاویزات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے فی الوقت یہ واضح نہیں کیا کہ امریکی صدر کی نئی حکمت عملی مہاجرین کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
ماضی میں صدر ٹرمپ چند مسلمان ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کو ٹرمپ انتظامیہ کے ایک حکام نے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ قومی سلامتی کے لیے ایک مرتبہ پھر غیر معمولی صدارتی اختیارات کا استعمال کریں گے۔
سفری پابندیاں عائد کرنے کی طرح نئے قواعد و ضوابط کو بھی قانونی رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ امریکی سول لبرٹی یونین نے جمعرات کے روز خبردار کیا ہے کہ امریکی امیگریشن اور شہری قانون کے مطابق ملک میں داخل ہونے والے تمام افراد کو پناہ کا حق حاصل ہے، خواہ وہ قانونی طور پر ملک میں داخل ہوں یا پھر ’سرحد عبور‘ کر کے۔
گزشتہ چند برس کے دوران امریکا میں پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکا میں سن 2017 میں 330,000 افراد نے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروائی جبکہ ملکی امیگریشن عدالتوں میں آٹھ لاکھ سے زائد پناہ کے درخواست کنندگان فیصلے کے منتظر ہیں۔ امریکا میں عام طور پر صرف بیس فیصد سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئی ہیں۔
ع آ / ع ا (نیوز ایجنسیاں)
بیدخل کیے جانے والے میکسیکن کی واپسی لیکن نئی شروعات کیسے
امریکی صدر کے حکم پر غیرقانونی میکسیکن مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی واپس بھیجے جانے والے مہاجرین نصف سے زائد زندگی امریکا میں بسر کر چکے ہیں۔ ہر ہفتے ایسے مہاجرین کے تین ہوائی جہاز میکسیکو سٹی پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Blackwell
ایک تلخ واپسی
امریکا میں مقیم غیرقانونی مہاجرین کو میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر پہنچایا جاتا ہے۔ ان کو ہتھکڑیاں پہنا کر ہوائی جہاز پر سوار کرایا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کے اترنے سے بیس منٹ قبل یہ ہتھکڑیاں کھول دی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
غیرقانونی اجنبی
جورج نینو کو اُس وقت پتہ چلا کہ وہ امریکا میں ایک غیرقانونی مہاجر ہے، جب اُس کی عمر اٹھارہ برس کی ہوئی۔ اُسے حکام نے سوشل سکیورٹی نمبر دینے سے انکار کر دیا۔ جورج کے والدین اُسے کم عمری میں امریکا لائے تھے۔ بچپن سے امریکا میں زندگی بسر کرنے والا جورج پانچ برس قبل بیدخل کر کے میکسیکو پہنچا دیا گیا۔ وہ چونتیس برس امریکا میں رہا۔ اُس کے چار بچے جو سابقہ بیوی کے ساتھ امریکی شہر فریزنو میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک غیر ملک
ماریا ہیریرا ستائیس برس کی ہے، اُسے امریکی حکام نے رواں برس دس اپریل کو ڈی پورٹ کیا۔ وہ امریکا میں اپنے قیام میں توسیع کے لیے ویزے کا انتظار کر رہی تھی کہ گرفتار کر لی گئی۔ وہ تین برس کی عمر میں میکسیکو سے امریکا پہنچی تھی۔ اب امریکا کی طرح میکسیکو بھی اُس کے لیے اجنبی دیس ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی شروعات
ماریا کی جورج سے ملاقات ایک غیرسرکاری تنظیم نیو کومینزوس کے دفتر میں ہوئی تھی۔ یہ تنظیم غیر ملکیوں کی معاونت کرتی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اس سے بھی بےخبر تھے کہ ایک دن انہیں میکسیکو سٹی میں ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا ہو گی۔ امریکا میں ماریا کو گرفتاری کے بعد ڈیپرشن کا بھی سامنا رہا۔ اب وہ نئی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
گرفتاری اور ملک بدری
ڈیگو میگوئل کی عمر سینتیس برس ہے، اُس کو سابقہ گرل فرینڈ کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں سن 2003 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ میگوئل کو امریکی حکام نے سن 2016 میں ملک بدر کر دیا۔
تصویر: DW/S. Derks
ٹرمپ اور اُس کی دیوار
پانچ ملک بدر کیے گئے میکسیکن شہریوں کو حکومت نے مالی معاونت کی اور اب وہ چھپائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی تیار کردہ ٹی شرٹس اور بیگز پر ’ٹرمپ اور اُن کی دیوار‘ لکھا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
مددگار ہاتھ
ڈیگو کے پاس کوئی بہت بڑی تنخواہ والی نوکری نہیں لیکن اپنے محدود وسائل کے ساتھ وہ میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر ملک بدر کیے گئے ہم وطنوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ ایسے افراد کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ وہ بھی امریکا سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ اُسے میکسیکو میں اپنا جدا ہو جانے والا بیٹا بہت یاد آتا ہے، جو اُس کی سابقہ بیوی کے ساتھ امریکا ہی میں مقیم ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی ابتدا ہو گئی ہے
ڈینئل سونڈوان کو رواں برس فروری میں امریکا سے بیدخل کیا گیا۔ وہ بہت مطمئن ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امریکا میں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت کم سوچتا تھا کیونکہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل اُسے شناختی دستاویزات کی ضرورت تھی، جو اُس کے پاس نہیں تھیں لیکن اس بیدخلی کے بعد میکسیکو میں وہ ایک بہتر مستقبل تعمیر کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
اطمینان سے آبادکاری
ڈینئل سونڈوان ایک پرنٹ شاپ کے اوپر رہ رہا ہے۔ ایک پادری نے اُس کی ابتدائی رہائش کا بندوبست کیا تھا۔ وہ میکسیکو سٹی میں ایک پچھتر برس کی خاتون کے گھر پر دو ہفتے مقیم رہا۔ اب بیدخل کیے جانے والے افراد کی مقامی تنظیم ڈی پورٹاڈوس کے تعاون سے وہ ایک نئی رہائش گاہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
بیدخلی کا روشن پہلو
بہت سارے بیدخل کیے جانے والے اپنی ساری جمع پونجی امریکا میں ہی چھوڑ چکے ہیں۔ کئی ایسے افراد کہتے ہیں کہ جو چھن چکا ہے، وہ سب کچھ نہیں تھا۔ یہ لوگ اپنے ملک میں قانونی شہری ہیں اور وہ کسی خوف کے بغیر جی رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔