امریکی حکومت بند ہو گئی، کانگریس نے بجٹ منظور نہ کیا
مقبول ملک اے پی
20 جنوری 2018
امریکی کانگریس کی طرف سے ہنگامی بجٹ کی عدم منظوری کے بعد وفاقی حکومتی دفاتر بند ہو گئے ہیں۔ محکمہ خزانہ کے مطابق مالی وسائل نہ ہونے کے باعث وفاقی ملازمین میں لاکھوں کو مجبوراﹰ رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
اشتہار
امریکا میں وفاقی حکومت کی یہ بندش ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب آج ہفتہ بیس جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی منصب پر فائز ہوئے ٹھیک ایک سال پورا ہو رہا ہے۔ واشنگٹن سے ہفتہ بیس جنوری کی صبح ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق سرکاری اداروں کی اس بندش سے فی الحال امریکا کی وفاقی حکومت کی کارکردگی جزوی طور پر متاثر ہو گی لیکن اگر یہ شٹ ڈاؤن زیادہ دیر تک چلا تو اس کے اثرات ہر حکومتی شعبے میں زیادہ شدت سے محسوس کیے جانے لگیں گے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ امریکا میں وفاقی حکومت کے دفاتر ہنگامی بنیادوں پر تجویز کردہ بجٹ کی کانگریس کی طرف سے عدم منظوری کے نتیجے میں بند ہو جائیں گے، یہ بات گزشتہ روز ہی واضح ہونا شروع ہو گئی تھی، لیکن مقامی وقت کے مطابق جمعہ انیس جنوری کو نصف شب کے وقت جب مقررہ ڈیڈ لائن گزر گئی، تو واشنگٹن انتظامیہ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ بچا کہ وہ اپنے دفاتر بند کر دے۔
اس بندش کے بعد اب وفاقی حکومت کے دو ملین سے زائد سویلین ملازمین میں سے نصف سے زائد کو ان کے دفاتر میں جانے سے روکتے ہوئے عارضی رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ اگر یہ حکومتی بندش پیر بائیس جنوری یا اس کے بعد تک بھی جاری رہی، تو اس کے اثرات مزید شدید ہو جائیں گے۔
فی الحال اس بندش سے امریکی مسلح افواج کے جتنے بھی فوجی جہاں کہیں بھی تعینات ہیں، وہ متاثر نہیں ہوں گے اور انہیں ان کی ڈاک معمول کے مطابق پہنچائی جاتی رہے گی۔ تاہم کئی دیگر حکومتی شعبوں میں اس ہنگامی صورت حال کے نتائج کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکے گا۔
اس کا ایک ثبوت یہ کہ امریکا کی داخلی ریونیو سروس یا آئی آر ایس کے قریب 81 ہزار ملازمین میں سے 56 فیصد یا قریب 46 ہزار کو بھی مجبوراﹰ چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔ اسی طرح صحت اور ہیومن سروسز کے وفاقی محکمے کے 80 ہزار میں سے اب نصف سے زائد اہلکار بھی اپنے دفاتر میں نہیں جائیں گے۔
اس کے برعکس یہی صورت حال وفاقی محکمہ انصاف کو بھی متاثر تو کرے گی لیکن مقابلتاﹰ کم۔ چونکہ اس شعبے کے زیادہ تر وفاقی ملازمین کے فرائض قومی سلامتی اور پبلک سکیورٹی سے متعلق ہیں، اس لیے ان ایک لاکھ پندرہ ہزار کے قریب سرکاری ملازمین میں سے زیادہ تر گورنمنٹ شٹ ڈاؤن کے باوجود اپنا کام جاری رکھیں گے۔
دیگر رپورٹوں کے مطابق امریکی محکمہ دفاع، دفتر خارجہ اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے اکثر ملازمین کا کام چونکہ ’لازمی نوعیت‘ کا سمجھا جاتا ہے، اس لیے ان میں سے بھی زیادہ تر کارکن کانگریس کی طرف سے ہنگامی بجٹ منظور نہ کیے جانے کے باوجود اپنے فرائض کی ادائیگی جاری رکھیں گے۔
ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کارٹونسٹوں کے ’پسندیدہ شکار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کِم جونگ اُن ایک دوسرے کو جوہری حملوں کی دھمکیاں دیتے ہوئے خوف اور دہشت پھیلا رہے ہیں لیکن کارٹونسٹ ان دونوں شخصیات کے مضحکہ خیز پہلو سامنے لا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Gado
’میرا ایٹمی بٹن تم سے بھی بڑا ہے‘
بالکل بچوں کی طرح لڑتے ہوئے شمالی کوریا کے رہنما نے کہا کہ ایٹمی ہتھیار چلانے والا بٹن ان کی میز پر لگا ہوا ہے۔ جواب میں ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پاس بھی ایک ایٹمی بٹن ہے اور وہ تمہارے بٹن سے بڑا ہے‘۔
تصویر: Harm Bengen
ہیئر اسٹائل کی لڑائی
دونوں رہنماؤں کے ہیئر اسٹائل منفرد ہیں اور اگر ایک راکٹ پر سنہری اور دوسرے پر سیاہ بال لگائے جائیں تو کسی کو بھی یہ جاننے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی کہ ان دونوں راکٹوں سے مراد کون سی شخصیات ہیں۔
تصویر: DW/S. Elkin
اگر ملاقات ہو
اگر دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہو تو سب سے پہلے یہ ایک دوسرے سے یہی پوچھیں گے، ’’تمہارا دماغ تو صحیح کام کر رہا ہے نا؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟‘‘
تصویر: A. B. Aminu
ماحول کو بدبودار بناتے ہوئے
اس کارٹونسٹ کی نظر میں یہ دونوں رہنما کسی اسکول کے ان لڑکوں جیسے ہیں، جو ماحول کو بدبودار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے شرط لگا لیتے ہیں۔
تصویر: tooonpool.com/Marian Kamensky
4 تصاویر1 | 4
دوسری طرف اس حکومتی بندش کے عرصے کے دوران امریکا کی مجموعی طور پر 17 انٹیلیجنس ایجنسیوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو بھی ان کے کام سے روک دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں جو کارکن کام کرتے رہیں گے، انہیں ان کی خدمات کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایسے وفاقی ملازمین کو حکومت کام کرتے رہنے کے لیے تو کہہ سکتی ہے لیکن انہیں شٹ ڈاؤن کے عرصے کے دوران کام کا کوئی معاوضہ پھر بھی ادا نہیں کیا جا سکے گا۔
امریکا کی وفاقی حکومت کی بندش اس لیے ناگزیر ہو گئی تھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کانگریس، خاص طور پر کانگریس کے ڈیموکریٹ ارکان کے مابین حکومتی اخراجات سے متعلق کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکا تھا اور یوں کانگریس نے ہنگامی بجٹ تجاویز بھی منظور نہ کیں۔
امریکا میں ایسے ہی حالات میں گزشتہ 25 برسوں کے دوران وفاقی حکومت جزوی طور پر تین مرتبہ ایسی بندش جیسی انتہائی صورت حال سے گزر چکی ہے۔ ماضی کی طرح اس بندش کی وجہ سے بھی مجموعی طور پر لاکھوں وفاقی ملازمین کو رخصت پر بھیج دیا گیا ہے اور کئی شعبوں میں حکومتی کارکردگی یا تو معطل یا پھر بہت محدود کر دی گئی ہے۔
امریکی صدر کے پاس کتنی طاقت ہوتی ہے؟
عام خیال ہے کہ امریکی صدر عالمی سیاسی سطح پر ایک غالب طاقت کی حیثیت رکھتا ہے تاہم یہ بات اتنی سیدھی اور واضح بھی نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے رہنما کے اختیارات محدود ہیں، فیصلوں میں دیگر حلقوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین یہ کہتا ہے
صدر چار سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے لیکن زیادہ سے زیادہ دو آئینی مدتوں کے بعد اُس کا دور ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سربراہ مملکت اور سربراہِ حکومت دونوں حیثیتوں میں کاروبارِ مملکت چلاتا ہے۔ کانگریس سے منظور شُدہ قوانین کو عملی شکل دینا اُس کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ صدر کی انتظامیہ تقریباً چار ملین کارکنوں پر مشتمل ہے۔ صدر دیگر ملکوں کے سفیروں کی اسناد قبول کرتا ہے اور یوں اُن ملکوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر کی سرگرمیوں پر کنٹرول
امریکا میں تین بڑے ادارے ایک دوسرے کے فیصلوں میں شرکت کا حق رکھتے ہیں اور یوں ایک دوسرے کے اختیارات کو محدود بناتے ہیں۔ صدر لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کر سکتا ہے اور وفاقی جج نامزد کر سکتا ہے لیکن محض سینیٹ کی رضامندی سے۔ سینیٹ ہی کی رضامندی کے ساتھ صدر اپنے وزیر اور سفیر بھی مقرر کر سکتا ہے۔ مقننہ اس طریقے سے بھی انتظامیہ کو کنٹرول کر سکتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’اسٹیٹ آف دی یونین‘ کی طاقت
صدر کو ملکی حالات کے بارے میں کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے اور یہ کام وہ اپنے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں انجام دیتا ہے۔ صدر کانگریس میں قوانین کے مسودے تو پیش نہیں کر سکتا تاہم وہ اپنے خطاب میں موضوعات کی نشاندہی ضرور کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ رائے عامہ کو ساتھ ملاتے ہوئے کانگریس کو دباؤ میں لا سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ کرنا صدر کے دائرہٴ اختیار میں نہیں ہوتا۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر چاہے تو سیدھے سیدھے ’نہیں‘ کہہ دے
صدر کسی قانونی مسودے پر دستخط کیے بغیر اُسے کانگریس کو واپس بھیجتے ہوئے اُسے ویٹو کر سکتا ہے۔ کانگریس اس ویٹو کو اپنے دونوں ایوانوں میں محض دو تہائی اکثریت ہی سے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔ سینیٹ کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق امریکی تاریخ میں پندرہ سو مرتبہ صدر نے ویٹو کا اختیار استعمال کیا تاہم اس ویٹو کو محض ایک سو گیارہ مرتبہ رَد کیا گیا۔ یہ شرح سات فیصد بنتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
اختیارات کی تشریح میں ابہام
آئین اور اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں کہ صدر دراصل کتنی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ صدر ایک اور طرح کا ویٹو بھی استعمال کر سکتا ہے اور وہ یوں کہ وہ کانگریس کے مسودہٴ قانون کو منظور کیے بغیر اُسے بس اپنے پاس رکھ کر بھول جائے۔ تب اُس قانون کا اطلاق ہی نہیں ہو پاتا اور نہ ہی کانگریس ایسے ویٹو کو رَد کر سکتی ہے۔ یہ سیاسی چال امریکی تاریخ میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ استعمال ہوئی۔
تصویر: Klaus Aßmann
ہدایات، جو قانون کے مترادف ہوتی ہیں
صدر حکومتی ارکان کو ہدایات دے سکتا ہے کہ اُنہیں اپنے فرائض کیسے انجام دینا ہیں۔ یہ ’ایگزیکٹیو آرڈرز‘ قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے ادارے کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود صدر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ ایسی ہدایات کو یا تو عدالتیں منسوخ کر سکتی ہیں یا پھر کانگریس بھی ان ہدایات کے خلاف کوئی نیا قانون منظور کر سکتی ہے۔ اور : اگلا صدر ان ہدایات کو بیک جنبشِ قلم ختم بھی کر سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کے ساتھ داؤ
صدر دوسری حکومتوں کے ساتھ مختلف معاہدے کر سکتا ہے، جنہیں سینیٹ کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرنا ہوتا ہے۔ منظوری کے اِس عمل کی زَد میں آنے سے بچنے کے لیے صدر معاہدوں کی بجائے ’ایگزیکٹیو ایگری مینٹس‘ یعنی ’حکومتی سمجھوتوں‘ کا راستہ اختیار کر سکتا ہے، جن کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ یہ سمجھوتے اُس وقت تک لاگو رہتے ہیں، جب تک کہ کانگریس اُن کے خلاف اعتراض نہیں کرتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
جب صدر کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے
صدر امریکی افواج کا کمانڈر اِن چیف ضرور ہے لیکن کسی جنگ کا اعلان کرنا کانگریس کے دائرہٴ اختیار میں آتا ہے۔ یہ بات غیر واضح ہے کہ صدر کس حد تک کانگریس کی منظوری کے بغیر امریکی دستوں کو کسی مسلح تنازعے میں شریک کر سکتا ہے۔ ویت نام جنگ میں شمولیت کے صدارتی فیصلے کے بعد بھی کانگریس نے قانون سازی کی تھی۔ مطلب یہ کہ صدر اختیارات اُس وقت تک ہی اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے، جب تک کہ کانگریس حرکت میں نہیں آتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی اور فیصلہ کن کنٹرول
صدر اختیارات کا ناجائز استعمال کرے یا اُس سے کوئی جرم سر زَد ہو جائے تو ایوانِ نمائندگان اُس کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ اب تک اس طریقہٴ کار کا استعمال دو ہی مرتبہ ہوا ہے اور دونوں مرتبہ ناکام ہوا ہے۔ لیکن کانگریس کے پاس بجٹ کے حق کی صورت میں ایک اور بھی زیادہ طاقتور ہتھیار موجود ہے۔ کانگریس ہی بجٹ منظور کرتی ہے اور جب چاہے، صدر کو مطلوبہ رقوم کی فراہمی کا سلسلہ روک سکتی ہے۔