امریکی حکومت نے گوگل کی اجارہ داری کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا
20 اکتوبر 2020
واشنگٹن حکومت اور کئی امریکی ریاستوں نے آن لائن سرچ کے شعبے میں ملکی کمپنی گوگل کی مبینہ کاروباری اجارہ داری کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ گوگل پر اپنے حریف اداروں کو نیچا دکھانے کے لیے قوانین کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔
اشتہار
واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق دنیا کی بہت بڑی بڑی اور انتہائی کامیاب کمپنیوں میں شمار ہونے والے ادارے گوگل کے خلاف یہ مقدمہ امریکی محکمہ انصاف اور امریکا کی گیارہ مختلف ریاستوں کی طرف سے ملک کے اینٹی ٹرسٹ قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کی وجہ سے منگل بیس اکتوبر کو دائر کیا گیا۔
اس مقدمے میں گوگل پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے آن لائن سرچ انجنز کی مارکیٹ میں اپنی انتہائی غالب پوزیشن کو اپنے حریف اداروں کو نیچا دکھانے کے لیے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے استعمال کیا۔ فوری طور پر گوگل نے اس پیش رفت پر اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
اشتہار
گوگل کتنی بڑی کمپنی ہے؟
گوگل کے سو فیصد ملکیتی حقوق 'ایلفابیٹ انکارپوریٹڈ‘ نامی کمپنی کے پاس ہیں۔ 'ایلفابیٹ‘ کا تو ذکر ہی کیا، خود گوگل اتنی بڑی کمپنی ہے کہ دنیا بھر میں فعال ادارے کے طور پر جہاں کہیں بھی لفظ انٹرنیٹ لفظ بولا جاتا ہے، وہیں پر ساتھ ہی گوگل کا نام بھی آتا ہے۔ یہاں تک کہ گوگل کے ذریعے کسی بھی آن لائن سرچ کے لیے عام صارفین ایک دوسرے کو یہ نہیں کہتے کہ کوئی بھی معلومات گوگل پر تلاش کر لیں، بلکہ اس کے لیے کہا جاتا ہے، ''گوگل کر لیں۔‘‘
گوگل کی آمدنی یورپی ملک ہنگری کی آمدنی سے بھی زیادہ
گوگل کاروباری حوالے سے اتنی کامیاب ہے کہ 2019ء میں اس امریکی کمپنی کو 162 بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی، جو یورپی یونین کے رکن ملک ہنگری کی سال بھر کی مجموعی قومی آمدنی سے بھی زیادہ بنتی تھی۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور صدارت میں، جب اگلے امریکی صدارتی الیکشن کے انعقاد میں تقریباﹰ دو ہفتے باقی رہ گئے ہیں، امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے دائر کیے گئے اس مقدمے کو ایک سیاسی چال بھی کہا جا رہا ہے۔
چند ماہرین اس اقدام کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی انتخابی وعدوں کا حصہ بھی قرار دے رہے ہیں، کیونکہ وہ ماضی میں کئی بار اپنے حامیوں کو یہ یقین دہانیاں کرا چکے ہیں کہ وہ ان بڑی بڑی کمپنیوں کو جواب دہ بنائیں گے، جو مبینہ طور پر امریکی قدامت پسند ووٹروں کی رائے کو دباتی ہیں۔
گیارہ ریاستی اٹارنی جنرل بھی ریپبلکن
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا کی کل 50 میں سے جو 11 ریاستیں اس مقدمے میں ملکی محکمہ انصاف کی ہم نوا بنی ہیں، ان سب کے اسٹیٹ اٹارنی جنرل اپنی سیاسی سوچ اور ترجیحات میں صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں یا اس کے حامی ہیں۔
گُوگل بنے گا اب آپ کا ذاتی اسسٹنٹ
01:03
اس سلسلے میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کو چند ترقی پسند ڈیموکریٹ ارکان کانگریس کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مثال کے طور پر امریکی سینیٹ کی خاتون رکن الزبتھ وارن تو #BreakUpBigTech کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے کئی بار یہ مطالبہ بھی کر چکی ہیں کہ بڑے بڑے ٹیکنالوجی اداروں کے خلاف 'فوری اور جارحانہ ایکشن‘ کی ضرورت ہے۔
گوگل کے خلاف کاروباری اجارہ داری کے الزام میں اب دائر کیے جانے والے مقدمے سے قبل اس بات کو ایک سال ہو چکا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف اور امریکا کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے چار بہت بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف اینٹی ٹرسٹ چھان بین بھی شروع کر دی تھی۔ یہ چار امریکی کمپنیاں ایمیزون، ایپل، فیس بک اور گوگل تھیں۔
جس طرح ایک مقدمہ گوگل کے خلاف اب امریکا میں دائر کیا گیا ہے، اسی طرح کے اقدامات کا ماضی میں اس امریکی کمپنی کو اپنے خلاف بیرون ملک بھی سامنا رہا ہے۔
لاک ڈاؤن: بھارتی عوام گوگل پر کیا تلاش کر رہی ہے
بھارت میں تین ہفتے دورانیہ کا لاک ڈاؤن 25 مارچ سے شروع ہوا تھا۔ لاک ڈاؤن کے دنوں میں بھارتی لوگ معروف سرچ انجن گوگل پر کورونا وائرس سے متعلق کیا کچھ تلاش کرتے رہے دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
مثال کے طور پر 2019ء میں یورپی یونین نے گوگل کو اس لیے 1.7 بلین ڈالر جرمانہ کر دیا تھا کہ تب گوگل نے مختلف ویب سائٹس کی طرف سے اس ادارے کے حریف اداروں کو اشتہار دینے والی کمپنیاں تلاش کرنے کے عمل میں رکاوٹیں ڈالی تھیں۔
اس کے علاوہ 2017ء میں گوگل کو یورپی یونین نے اس لیے 2.6 بلین ڈالر جرمانہ کیا تھا کہ گوگل اپنے سرچ انجن کے ذریعے صارفین کو مختلف نتائج دکھانے میں اپنے ہی شاپنگ بزنس کو ترجیح دیتی تھی۔
اس طرح گوگل کو اپنے اینڈروئڈ آپریٹنگ سسٹم استعمال کرنے والے حریف اداروں کو بلاک کرنے کی کوشش کرنے پر 2018ء میں بھی 4.9 بلین ڈالر جرمانہ کیا گیا تھا۔
م م / ع س (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔