روس کی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے جارجیا میں حیاتیاتی ہتھیار آزمانے کا خفیہ پروگرام شروع کر رکھا ہے جس کی وجہ سے وہاں کم از کم 73 افراد ہلاک ہوئے۔ امریکی حکام نے اسے مغرب کے خلاف روسی پراپیگنڈا قرار دیا ہے۔
اشتہار
روسی وزارت دفاع کی جانب سے یہ دعویٰ عالمی سطح پر روس کے خلاف ان الزامات کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا جن میں کہا گیا تھا کہ وہ مختلف ممالک میں ہیکنگ کی کوششوں میں مصروف ہے، جن میں اقوام متحدہ کی کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد کی ایجنسی بھی شامل ہے۔ یہ ایجنسی اس بات کی تحقیقات میں مصروف ہے کہ آیا ماسکو سابق روسی ڈبل ایجنٹ سیرگئی اسکرپل کو ہلاک کرنے کی کوشش میں مصروف ہے یا نہیں۔
روسی وزارت دفاع کے مطابق قفقاز کی ریاست جارجیا میں امریکی فنڈنگ سے قائم کردہ طبی مرکز ’لوگار سنٹر‘ کو بائیولوجیکل ہتھیاروں کو آزمانے کے لیے بطور کور استعمال کیا گیا۔ روسی نیوز ایجنسی انٹرفیکس کے مطابق روس کے ’ملٹری ریڈی ایشن، کیمیکل اینڈ بائیالوجیکل پروٹیکشن یونٹ‘ کے سربراہ ایگور کیریلوف نے جمعرات چار ستمبر کو کہا، ’’رضاکاروں کی ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکت سے لگتا ہے کہ لوگار سنٹر طبی علاج کے بھیس میں ایک انتہائی زہریلے کیمیائی یا انتہائی خطرناک حیاتیاتی عامل کا تجربہ کر رہا ہے۔‘‘ کیریلوف کا مزید کہنا تھا، ’’دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ اس تجربے کے دوران بڑے پیمانے پر مریضوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ صرف دسمبر 2015ء میں ہی 24 مریضوں کی ہلاکت کے باوجود یہ کلینیکل ٹیسٹ جاری ہے اور اس دوران مریضوں کی مرضی حاصل کرنے کے بین الاقوامی معیارات کو نظرانداز کیا گیا۔ اسی باعث 49 دیگر افراد کی موت ہوئی۔‘‘
امریکی محکمہ دفاع نے ان الزامات کو مغرب کے خلاف روس کی ’’غلط اطلاعات پر مبنی مہم‘‘ کا حصہ قرار دیا ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان ایرک پاہون نے جمعرات کے روز ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روسی حکام کی طرف سے یہ تازہ الزام ’’کئی معاملات میں روسی رویے سے توجہ ہٹانے کی کھلی کوشش ہے۔‘‘ پاہون نے اس بات کی تردید کی کہ امریکا لوگار سنٹر میں بائیالوجیکل ہتھیاروں کی تیاری کی کوئی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سنٹر ’’انسانوں اور جانوروں کے لیے ایک مشترکہ عوامی سہولت‘‘ ہے۔
شام میں حملے کیسے کیے گئے؟
امریکا، برطانیہ اور فرانس نے شام پر دمشق کے نواحی قصبے دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر فضائی حملے کیے۔ اس پورے معاملے کو تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
کیمیائی ہتھیاروں کے مراکز پر حملے
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق اور حمص شہر میں کیمیائی ہتھیاروں کے حکومتی مراکز کو نشانہ بنایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
برطانوی لڑاکا طیارے ٹورناڈو
امریکا، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے میزائلوں کے علاوہ لڑاکا طیاروں نے بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ حکام کے مطابق اس پورے مشن میں شریک تمام طیارے اپنی کارروائیاں انجام دینے کے بعد بہ حفاظت لوٹ آئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی حملے پر سخت ردعمل
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے دوما میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا موثر جواب دیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسے حملے نہ ہوں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی ہتھیاروں کا تحقیقی مرکز تباہ
یہ تصویر دمشق کے نواح میں قائم اس تحقیقی مرکز کی ہے، جہاں امریکی حکام کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق تحقیق جاری تھی۔ اس عمارت پر کئی میزائل لگے اور یہ عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا
امریکی حکام کے مطابق ان حملوں میں کسی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات نہیں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد شامی حکومت گرانا نہیں بلکہ اس کی کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت پر وار کرنا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
سلامتی کونسل منقسم
ان حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں روس کی جانب سے ان حملوں کی مذمت سے متعلق قرارداد پیش کی گئی، جسے سلامتی کونسل نے مسترد کر دیا۔ شام کے موضوع پر سلامتی کونسل میں پائی جانے والی تقسیم نہایت واضح ہے۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Muzi
تحمل سے کام لینے کی اپیل
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سلامتی کونسل کے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اشتعال انگیزی کی بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے دوما میں کیمیائی حملے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ شامی تنازعے کا واحد حل سیاسی مذاکرات سے ممکن ہے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
روس کی برہمی
شام پر امریکی، فرانسیسی اور برطانوی حملوں پر روس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ’ناقابل‘ قبول قرار دیا۔ اس سے قبل روس نے دھمکی دی تھی کہ اگر شام میں تعینات کوئی روسی فوجی ان حملوں کا نشانہ بنا، تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
جرمنی عسکری کارروائی کا حصہ نہیں بنا
جرمن حکومت نے شام میں عسکری کارروائی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تاہم کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر امریکا، برطانیہ اور فرانس کی یہ کارروائی قابل فہم ہے۔ جرمنی اس سے قبل عراق جنگ میں بھی عسکری طور پر شامل نہیں ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappe
امریکی فورسز تیار ہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مستقبل میں شامی فورسز نے دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا، تو امریکی فورسز دوبارہ کارروائی کے لیے ہردم تیار ہوں گی۔