امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے اہلکار کی گرفتاری کے لیے درخواست
19 جولائی 2011یہ درخواست ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے تین رشتہ داروں صدااللہ، کریم خان اور میزول خان کی جانب سے ان کے وکیل مرزا شہزاد اکبر نے دی ہے۔ ان تینوں افراد کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔
مرزا شہزاد اکبر کا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’سی آئی اے کے اہلکار جان اے ریزو پاکستان میں ڈرون حملوں کے احکامات جاری کرنے اور ان حملوں کے نتیجے میں معصوم شہریوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں اور ان کے انٹرنیشنل وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے لیے درخواست دی گئی ہے۔‘‘
درخواست میں کہا گیا ہے کہ جان اے ریزو نے انٹرنیشنل میگزین نیوز ویک کو دیئے گئے انٹرویو میں پاکستان میں ڈرون حملے کروانے کا اعتراف کیا ہے۔ درخواست میں ایف آئی آر کے اندراج سمیت جان اے ریزوکے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے لیے انٹرپول سے رابطہ کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے ڈرون حملوں میں القاعدہ اور طالبان کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تاہم پاکستانی عوام میں یہ حملے انتہائی نامقبول ہیں۔ پاکستانی حکومت بھی کئی مرتبہ اپنے خدشات سے امریکی حکام کو آگاہ کر چکی ہے۔ شہزاد اکبر کاکہنا تھا، ’’ریزو 1970ء سے سی آئی اے کے لیے کام کرتے آئے ہیں اور سن 2004 میں پاکستانی قبائلی علاقوں میں ہونے والے ابتدائی حملوں کے ذمہ دار ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ ریزو کا ایک یہ بھی کام تھا کہ وہ ہر مہینے ان افراد کی فہرست تیار کرتے تھے، جن کو قتل کیا جانا تھا۔‘‘
شہزاد اکبر پاکستان میں سی آئی اے کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کریم خان نے ڈرون حملے میں اپنے بیٹے اور بھائی کی ہلاکت ہونے پر امریکہ سے 500 ملین ڈالر کے معاوضے کی ادائیگی کی اپیل کر رکھی ہے۔
دریں اثنا ایک معروف پاکستانی وکیل اور سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمان نے کہا ہے کہ پولیس میں اپنی شکایت درج کروانا قبائلیوں کا حق ہے، ’’ہمارا قانون ہماری سرزمین پر کسی بھی کارروائی یا کسی غیر ملکی کارروائی کی اجازت نہیں دیتا اور اس وجہ سے یہ حملے ہماری خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ابیٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاک کے بعد سے کم از کم 20 ڈرون حملے کیے جا چکے ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عابد حسین