امریکی خفیہ ایجنسی کی مبینہ کارروائی: برلن میں بھی احتجاج
24 اکتوبر 2013گزشتہ روز منظر عام پر آنے والی ان اطلاعات کے بعد کہ جرمن حکومت کو ایسی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن کے مطابق امریکی انٹیلیجنس ادارے چانسلر میرکل کے موبائل ٹیلی فون کی جاسوسی کرتے رہے ہیں، برلن سمیت یورپی یونین کی سطح تک سیاسی حلقوں میں خاصی ہلچل دکھائی دے رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جرمن چانسلر نے اس بارے میں امریکی صدر باراک اوباما سے ٹیلی فون پر بات بھی کی ہے۔ آج جمعرات کو برسلز میں یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں بھی اس موضوع پر بحث متوقع ہے۔
پیرس کے بعد اب برلن بھی متاثر، امریکی انٹیلی جنس ایجنسی این ایس اے نے مبینہ طور پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی ٹیلی فون گفتگو کی جاسوسی کی ہے۔ برلن کے دفتر خارجہ نے فوری طور سے برلن متعینہ امریکی سفیر سے وضاحت طلب کر لی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے آج جمعرات کی سہ پہر امریکی سفیر سے ملاقات کر رہے ہیں جس میں امریکی خفیہ ایجنسی کی ان سرگرمیوں کے بارے میں جرمن حکومت کا موقف کھل کر پیش کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ برلن میں خفیہ پارلیمانی کنٹرول پینل کا ایک خصوصی اجلاس بھی منعقد ہو رہا ہے۔ دریں اثناء سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے رہنما زیگمار گابریئل نے جاسوسی کے اس اسکینڈل کے پیش نظر یورپی یونین اور امریکا کے مابین آزاد تجارت کے معاہدے کے سلسلے میں طے مذاکرات پر سوال اٹھایا ہے۔
اُدھر جرمنی کی پارلیمانی داخلہ کمیٹی کے صدر اور میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کے سیاستدان وولفگانگ بوسباخ نے ایک بیان میں کہا، ’’تمام سیاسی پارٹیاں اور اُن کے دھڑے امریکی خفیہ ایجنسی کی اس حرکت پر سخت برہم ہیں اور اس بارے میں امریکا سے کیے گئے سوال کے جواب پر بھی اتنا ہی غصہ ہے کیونکہ اس جواب میں کہا گیا ہے کہ میرکل کی موبائل فون پر گفتگو کی جاسوسی نہیں کی جائے گی، اس سے یہ نہیں پتہ چلتا کہ آیا ماضی میں ایسا ہوا ہے یا نہیں۔ اس معاملے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے کھاتے میں ڈال دینے کا عمل کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ اس معاملے کی سنجیدگی سے چھان بین ضروری ہے۔‘‘
جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل نے اطلاع دی ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے مبینہ طور پر کئی سالوں سے میرکل کے موبائل فون کی جاسوسی کر رہی ہے۔ ادھر واشنگٹن حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان جے کارنی کے بقول، ’’میں اپنی اور صدر باراک اوباما کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ امریکا نے جرمن چانسلر کے موبائل فون کی نہ تو ماضی میں جاسوسی کی ہے اور نہ ہی مستقبل میں کرے گا۔ ہم جرمنی کے ساتھ اپنے اشتراک عمل کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘
ان خبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد برلن کے علاوہ کئی جرمن شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے بھی ہوئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کے کوائف اور دیگر معلومات تک امریکا یا کسی اور کو رسائی نہیں دی جانی چاہیے۔
میرکل کی حکومت اپنے اوپر عائد ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار دو میں ایس پی ڈی کے چانسلر گیرہارڈ شروئڈر کے دور حکومت میں انٹیلیجنس کے تبادلے کے حوالے سے جو معاہدہ ہوا تھا، وہ اسی پر عمل درآمد کر رہی ہیں۔
آج جمعرات سے برسلز میں شروع ہونے والے یورپی یونین کے سربراہانِ مملکت و حکومت کے دو روزہ اجلاس کے دوران دیگر موضوعات کے علاوہ امریکا کی جانب سے مبینہ جاسوسی اور یورپ میں انٹرنیٹ نظام کو مزید مستحکم بنانے کا موضوع بھی زیر بحث رہے گا۔