امریکی درآمدی مصنوعات پر بیس ارب ڈالر کے اضافی یورپی محصولات
25 جولائی 2018
امریکا اور یورپی یونین کے مابین تجارتی جنگ کی شدت کم ہوتی نظر نہیں آتی۔ یورپی یونین کی تجارتی امور کی کمشنر مالمسٹروم کے مطابق یورپی یونین امریکی درآمدات پر بیس ارب ڈالر کے اضافی محصولات عائد کرنے کی تیاریوں میں ہے۔
اشتہار
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم سے بدھ پچیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین کی تجارتی امور کی نگران خاتون کمشنر سیسیلیا مالمسٹروم نے ایک سویڈش اخبار کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ برسلز اس وقت ان تیاریوں میں ہے کہ اگر واشنگٹن حکومت نے یورپ سے درآمد کردہ موٹر گاڑیوں پر نئی اضافی امپورٹ ڈیوٹی عائد کردی، تو جواباﹰ یورپ بھی امریکی درآمدی مصنوعات پر 20 ارب ڈالر مالیت کے اضافی محصولات عائد کرے گا۔
مالمسٹروم نے امریکا روانگی سے قبل دیے گئے اور آج بدھ کو شائع ہونے والے اپنے اس انٹرویو میں کہا، ’’میں امید کرتی ہوں کہ بات وہاں تک نہ پہنچے اور کوئی حل نکل آئے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا، تو یورپی کمیشن اپنی طرف سے تو امریکی درآمدی مصنوعات پر ایک بار پھر اضافی محصولات عائد کرنے کے لیے ایک نئی طویل فہرست تیار کر ہی رہا ہے۔ جوابی اقدام کے طور پر عائد کردہ ان نئے درآمدی ٹیکسوں کی مالیت 20 ارب ڈالر ہو گی۔‘‘
ساتھ ہی سیسیلیا مالمسٹروم نے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ نئے یورپی محصولات امریکا کی کسی خاص ریاست یا ریاستوں کے خلاف عائد نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی ان کا اطلاق خاص طرح کی امریکی مصنوعات پر ہو گا۔
کمشنر سیسیلیا مالمسٹروم نے کہا، ’’یہ نئے امپورٹ ٹیکس عمومی درآمدی مصنوعات پر عائد کیے جائیں گے، جیسے کہ زرعی پیداواری اشیاء، مشینری، ہائی ٹیک درمدآت اور دیگر مصنوعات۔‘‘
امریکی وزیر خزانہ کی تجویز ’سنجیدہ نہیں‘
یورپی یونین کی اس کمشنر کے مطابق امریکی وزیر خزانہ سٹیو منَوچِن نے یورپی امریکی تجارت میں محصولات ختم کرنے کی جو تجویز دی ہے، وہ اس میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا میں ایسے قوانین موجود ہیں، اور ایسی مالی اعانتوں کی روایت بھی موجود ہے، جن کا مقصد امریکی پیداواری صنعتوں کا تحفظ ہے۔
سیسیلیا مالمسٹروم کے بقول، ’’یورپی یونین نے ٹرانس اٹلانٹک ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ پارٹنرشپ یا TTIP کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ماضی میں یہ کوشش کی تھی کہ امریکا اپنے ہاں ان قوانین میں نرمی کرے۔ لیکن اس ہدف کا حصول ممکن ہی نہیں ہو سکا تھا۔ ان مذاکرات کے دوران امریکی نمائندے تو اپنے موقف سے ایک ملی میٹر بھی پیچھے نہیں ہٹے تھے۔‘‘
یورپ اور امریکا کے تجارتی تعلقات
یورپی یونین اور امریکا ایک دوسرے کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹیں رہی ہیں۔ ڈالتے ہیں ایک نظر ان دونوں خطوں کے درمیان درآمدات و برآمدات پر اور جانتے ہیں وہ کون سی انڈسٹری ہیں جو تجارتی جنگ سے متاثر ہوں گی۔
تصویر: Imago/Hoch Zwei Stock/Angerer
ٹریلین یورو سے زائد کی تجارت
یورپی یونین، امریکا کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے جہاں امریکا کی مجموعی برآمدات کا پانچواں حصہ اپنی کھپت دیکھتا ہے۔ اسی طرح یورپی برآمدات کا پانچواں حصہ امریکی مارکیٹ کا حصہ بنتا ہے۔ سال 2017ء میں دونوں خطوں کے درمیان ساز وسامان اور سروس کی مد میں 1,069.3 بلین یورو کی تجارت ہوئی۔ یورپ نے امریکا سے 256.2 بلین یورو کا سامان درآمد کیا اور 375.8 بلین یورو کا تجارتی مال برآمد کیا۔
تصویر: Imago/Hoch Zwei Stock/Angerer
تجارتی سرپلس
یورپ اور امریکا کے درمیان زیادہ تر مشینری، گاڑیوں، کیمیکلز اور تیار کیے گئے ساز و سامان کی درآمد و برآمد ہوتی ہے۔ ان تینوں کیٹگریوں کے علاوہ کھانے پینے کی تجارت سے یورپ کو تجارت میں بچت یا سرپلس ملتا ہے۔ جبکہ امریکا کو توانائی اور خام مال کی تجارت پر سرپلس حاصل ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters
چوٹی کی برآمدات ، گاڑیاں اور مشینری
یورپ امریکا کو گاڑیوں اور مشینری کی مد میں سب سے بڑی برآمد کرتا ہے جس کا حجم 167 بلین یورو ہے
تصویر: picture-alliance/U. Baumgarten
محاصل میں اضافہ
اس برس مئی کے اختتام پر ٹرمپ انتظامیہ نے یورپ کے لیے اسٹیل پر 25 فیصد اور المونیم پر 10 فیصد محصولات عائد کر دی ہیں۔ امریکا کو سن 2017ء میں 3.58 بلین یورو اسٹیل اور ایلمونیئم کی برآمد کی گئی۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
جوابی محاصل
امریکا کی جانب سے محصولات میں اضافہ عائد کرنے کے بعد یورپ کی جانب سے ان مصنوعات کی فہرست مرتب کی گئی ہے جس پر جوابی محصولات عائد کیے گیے ہیں۔ ان میں بعض روایتی امریکی مصنوعات ہیں مثلاﹰ پینٹ بٹر، بربن وہسکی، ہارلی ڈیوڈسن موٹرسائکل، جینز اور نارنگی کے جوس ۔ یورپ نے جن برآمدات کو ٹارگٹ کیا ہے ان سے امریکا کو سالانہ 2.8 بلین ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔
تصویر: Shaun Dunphy / CC BY-SA 2.0
سفری اور تعلیمی سروس
خدمات یا سروس کی مد میں یورپ درآمدات کی مد میں 219.3 بلین یورو اور برآمدات کی مد میں 218 بلین یورو کی تجارت کرتا ہے۔ ان میں پروفیشنل اور مینجمنٹ سروسز، سفر اور تعلیم سرفہرست ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
6 تصاویر1 | 6
اعلیٰ ترین یورپی وفد امریکا میں
مالمسٹروم کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ اس انتہائی اہم یورپی وفد کے ساتھ اس وقت امریکا کے دورے پر ہیں، جو آج بدھ کے روز واشنگٹن میں امریکی حکام سے مذاکرات کر رہا ہے۔ یہ بات چیت یورپی یونین اور امریکا کے مابین ایک ممکنہ طویل المدتی تجارتی معاہدے سے متعلق ہو گی۔
اس وفد کی قیادتں یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر کر رہے ہیں، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملیں گے۔ کئی ماہرین کے مطابق یہ ممکنہ طور پر وہ آخری سفارتی اور سب سے بڑی سیاسی کوشش ہے، جو یورپ کر رہا ہے، اور جس کا مقصد امریکا کے ساتھ تجارتی تنازعے کو حل کرنا ہے۔
اقتصادی اور سیاسی ماہرین کے مطابق اگر یہ دورہ بھی ناکام ہو گیا، تو پھر امریکا اور یورپی یونین کے مابین تجارتی حوالے سے صرف کشیدگی اور کھچاؤ ہی باقی بچیں گے، جن کا نتیجہ فریقین کی آپس میں اور بھی شدید تجارتی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
م م / ع ح / روئٹرز
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔