عمران خان ثالثی کے لیے سعودی عرب اور ایران جا سکتے ہیں
10 اکتوبر 2019
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان امریکا کی طرف سے تہران اور ریاض کے مابین پائے جانے والے تنازعے میں ثالثی کی درخواست پر ایران اور سعودی عرب کے دورے کر سکتے ہیں۔
اشتہار
اسلام آباد سے جمعرات دس اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے آج صحافیوں کو بتایا کہ کافی زیادہ امکان ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ممکنہ طور پر جلد ہی ہمسایہ ملک ایران اور خلیج کی عرب بادشاہت سعودی عرب کے دورے کریں گے۔ اسلام آباد کی طرف سے چند ہفتے قبل ہی کہا گیا تھا کہ واشنگٹن نے پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ تہران کے ساتھ رابطوں کے سلسلے میں اپنی طرف سے ثالثی کوششیں کرے۔
اس بارے میں محمد فیصل نے صحافیوں کو بتایا، ''اس بات کا کافی زیادہ امکان ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عنقریب ہی سعودی عرب اور ایران کے دورے کریں گے۔ اس سلسلے میں کسی بھی نئی پیش رفت کی تفصیلات بروقت جاری کر دی جائیں گی۔‘‘
روئٹرز نے لکھا ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے آج کے اس اعلان سے قبل عمران خان نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں درخواست کی ہے کہ وہ تہران اور واشنگٹن کے مابین کشیدگی میں کمی کے لیے کوششیں کریں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کے روز ایک نیوز بریفنگ میں اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر کوئی بھی تبصرہ نہ کیا کہ آیا عمران خان کے ایران اور سعودی عرب کے آئندہ ممکنہ دوروں کا تعلق امریکا کی طرف سے کی گئی ثالثی کی درخواست سے ہے۔
ایران اور امریکا کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کے علاوہ ان دنوں ایران اور سعودی عرب کے مابین بھی کشیدگی عروج پر ہے۔ اس نئے تناؤ کی وجہ سعودی عرب میں چودہ ستمبر کو تیل کی انتہائی اہم تنصیبات پر کیے جانے والے وہ ڈرون اور میزائل حملے بنے تھے، جن کی ذمے داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کر لی تھی۔
ان حملوں کے بارے میں تاہم امریکا اور سعودی عرب کا الزام یہ تھا کہ ان کے پیچھے ایران کا ہاتھ تھا۔ لیکن ایران نے اپنے خلاف ان الزامات کی اسی وقت بھرپور تردید کر دی تھی۔
م م / ش ح (روئٹرز)
خليجی خطے کی حاليہ کشيدگی، کب کب، کيا کيا ہوا
امريکا کی جانب سے فوجيوں کی تعداد میں اضافہ اور عسکری ساز و سامان کی تعيناتی، سعودی تنصيبات پر حملے و ايران کی دھمکياں۔ خليج کے خطے ميں اس وقت شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔ چند حاليہ اہم واقعات پر ڈی ڈبليو کی تصاويری گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
امريکا کی جوہری ڈيل سے دستبرداری، کشيدگی کی نئی لہر کی شروعات
ايران کی متنازعہ جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کی غرض سے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے پانے والے معاہدے سے آٹھ مئی سن 2018 کو امريکا نے يکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ايران پر اقتصادی پابندياں بحال کر ديں۔ روايتی حريف ممالک ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی کی تازہ لہر کا آغاز در اصل اسی پيش رفت سے ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
ايران کی بے بسی اور پھر جوہری ڈيل سے دستبرداری
آنے والا وقت ايرانی اقتصاديات کے ليے بے حد مشکل ثابت ہوا۔ افراط زر اور ديگر معاشی مسائل کے سائے تلے دباؤ کی شکار تہران حکومت نے رواں سال مئی کے اوائل ميں اعلان کيا کہ آٹھ مئی کو ايران اس ڈيل سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اس پيشرفت کے بعد ڈيل ميں شامل ديگر فريقين نے ايران پر زور ديا کہ ڈيل پر عملدرآمد جاری رکھا جائے تاہم تہران حکومت کے مطابق امريکا پابنديوں کے تناظر ميں ايسا ممکن نہيں۔
امريکی قومی سلامتی کے مشير جان بولٹن نے پانچ مئی کو اعلان کيا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے ’يو ايس ايس ابراہم لنکن‘ نامی بحری بيڑہ اور بمبار طيارے مشرقی وسطی ميں تعينات کيے جا رہے ہيں۔ اس اقدام کی وجہ مشرق وسطی ميں ’پريشان کن پيش رفت‘ بتائی گئی اور آئندہ دنوں ميں پيٹرياٹ ميزائل دفاعی نظام اور بی باون لڑاکا طيارے بھی روانہ کر ديے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Mass Communication Specialist 3r/U.S. Navy/AP/dpa
سعودی تنصيبات پر حملے، ايران کی طرف اشارے مگر تہران کی ترديد
متحدہ عرب امارات سے متصل سمندری علاقے ميں دو سعودی آئل ٹينکروں کو بارہ مئی کے روز حملوں ميں شديد نقصان پہنچا۔ يہ حملے فجيرہ کے بندرگاہی شہر کے قريب ہوئے جو آبنائے ہرمز کے قریب ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ ايران يہ کہتا آيا ہے کہ امريکی جارحيت کی صورت ميں وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ايران نے سعودی آئل ٹينکروں پر حملے کو ’قابل مذمت اور خطرناک‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
مسلح تنازعے سے بچاؤ کے ليے سفارت کاری
تيرہ مئی سن 2019 کو جوہری ڈيل ميں شامل يورپی فريقين نے امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو سے ملاقات کی۔ برطانيہ نے ’حادثاتی طور پر جنگ چھڑ جانے‘ سے خبردار بھی کيا۔ ايک روز بعد ہی پومپيو نے کہا کہ امريکا بنيادی طور پر ايران کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہيں۔ پھر ايرانی سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای نے بھی کشيدگی ميں کمی کے ليے بيان ديا کہ امريکا کے ساتھ جنگ نہيں ہو گی۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
امريکا ايران کشيدگی، عراق سے متاثر
اس پيش رفت کے بعد پندرہ مئی کو امريکا نے عراق ميں اپنے سفارت خانے ميں تعينات تمام غير ضروری عملے کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر ديے۔ اس فيصلے کی وجہ ايران سے منسلک عراقی مليشياز سے لاحق خطرات بتائی گئی۔ جرمنی اور ہالينڈ نے بھی عراقی فوجيوں کی تربيت کا عمل روکنے کا اعلان کر ديا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
امريکی صدر کی اب تک کی سخت ترين تنبيہ
انيسی مئی کو امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ايک بيان ميں ايران کو خبردار کيا کہ امريکی مفادات و امريکا کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانے کی کوشش کے نتيجے ميں ايرن کو تباہ کر ديا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا، ’’اگر ايران لڑنا چاہتا ہے، تو يہ اس سرزمين کا خاتمہ ہو گا۔‘‘
تصویر: Imago/UPI//Imago/Russian Look
خطے کے معاملات ميں مبينہ مداخلت پر ايران پر کڑی تنقيد
گو کہ پچھلے دنوں دونوں ممالک نے مقابلتاً نرم بيانات بھی ديے اور کشيدگی کم کرنے سے متعلق بيانات سامنے آئے تاہم کشيدگی اب تک برقرار ہے۔ انتيس مئی کو جان بولٹن نے کہا کہ انہيں تقريباً يقين ہے کہ سعودی آئل ٹينکروں پر حملے ميں ايران ملوث ہے۔ اسی روز اسلامی تعاون تنظيم کے اجلاس ميں بھی سعودی وزير خارجہ نے خطے ميں ايرانی مداخلت پر کڑی تنقيد کی۔