امریکی دستبرداری گلوبل آرڈر کے لیے دھچکا ہے، جرمن چانسلر
11 مئی 2018
ایرانی جوہری ڈیل سے امریکی علیحدگی اور نئی پابندیوں سے متاثر ہونے والی یورپی کمپنیوں کے معاملات یورپ میں باعث تشویش ہیں۔ دوسری جانب جرمن اور روسی رہنماؤں نے بھی امریکی فیصلے پر بات چیت کی ہے۔
اشتہار
ایرانی جوہری ڈیل کے حوالے امریکی صدر کے فیصلے پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اس پر اتفاق کیا کہ وہ ایرانی جوہری ڈیل کو محفوظ رکھنے پر متفق ہیں۔ ماسکو سے روسی حکومتی بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے جوہری ڈیل سے یک طرفہ طور پر امریکا کی علیحدگی سے پیدا ہونے والی صورت حال پر بات کی اور اتفاق کیا کہ یہ ڈیل بین الاقوامی اہمیت کے علاوہ خطے کے استحکام کے لیے اہم ہے۔ قبل ازیں جرمن چانسلر نے ایرانی صدر سے بھی ٹیلی فون پر بات کی تھی۔
جرمن چانسلر نے ڈیل سے علیحدہ ہونے کے حوالے سے یہ بھی واضح کیا کے ایسے امریکی فیصلے سے یورپ کے ساتھ امریکی تعلقات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ انگیلا میرکل نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ایرانی جوہری ڈیل کو امریکا کے بغیر کس طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے، اس کے لیے تہران حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کے بعد ہی تعین کیا جا سکے گا۔
جرمنی کے شہر میونسٹر میں ایک تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے میرکل نے کہا کہ بارہ برسوں کی سفارتی محنت سے طے پانے والی ڈیل کی توثیق سلامتی کونسل نے بھی کی تھی اور امریکی صدر کے فیصلے سے گلوبل آرڈر یا عالمی امن کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے پیرس کلائمیٹ ڈیل سے امریکی علیحدگی کے تناظر میں کہا کہ اگر معاملات پسند نہیں ہیں تو اس سے انٹرنیشنل آرڈر یا بین الاقوامی امن کا حصول ممکن نہیں اور یہ اقوام عالم کے لیے کوئی اچھی اطلاع نہیں قرار دی جا سکتی۔
دوسری جانب فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں ایو لیدریاں نے اُس امریکی فیصلے کی مذمت کی ہے کہ ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی کے بعد امریکا کی جانب سے پابندیوں کے نفاذ سے ایران سے کاروباری تعلق رکھنے والی کمپنیوں کو بھی مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نے اس امریکی فیصلے کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ لیدریاں کا بیان رواں ہفتے کے دوران منگل کو ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی اور اسلامی جمہوریہ ایران پر ایک مرتبہ پر پابندیوں کے نفاذ کے تناظر میں ہے۔
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔