1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی دفتر خارجہ کے حکام کی ملکی وزیر ٹلرسن کی خلاف ’بغاوت‘

مقبول ملک روئٹرز
21 نومبر 2017

امریکی دفتر خارجہ کے قریب ایک درجن حکام نے وزیر خارجہ ٹلرسن پر غیر ملکی فوجوں اور ملیشیا گروپوں کی طرف سے نابالغ فوجیوں کے استعمال سے متعلق ایک امریکی قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف ’بغاوت‘ کر دی ہے۔

افغان جنگی تنازعے میں نابالغ بچوں کو بھی بےقاعدہ فوجیوں اور جنگجوؤں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہےتصویر: picture alliance/Tone Koene

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے منگل اکیس نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی خصوصی رپورٹوں کے مطابق ان قریب ایک درجن امریکی حکومتی اہلکاروں نے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے امریکا ہی کے ایک وفاقی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ قانون اس امر کا احاطہ کرتا ہے کہ بیرونی ممالک میں کسی بھی ریاست کی فوج یا ملیشیا گروپ اپنی صفوں میں نابالغ بچوں کو فوجیوں یا جنگجوؤں کے طور پر بھرتی نہ کریں۔

داعش کے خود کش حملوں میں بچوں کا مسلسل بڑھتا ہوا استعمال

تنہا یورپ آنے والے نابالغ تارکین وطن

بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف جرمن ماڈل منصوبے کی بڑی کامیابی

روئٹرز کے مطابق یہ اقدام، جسے وزیر خارجہ ٹلرسن کے خلاف ’بغاوت‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک ایسے اندرونی لیکن خفیہ دستاویز کی صورت میں سامنے آیا، جس کی ایک کاپی خود روئٹرز کے نامہ نگاروں نے بھی دیکھی۔ یہ میمو 28 جولائی کو لکھا گیا تھا۔

اس ’میمو‘ کے مطابق، جس کی موجودگی کا آج تک کسی کو علم نہیں تھا، امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن اس وقت امریکا ہی کے ایک وفاقی قانون Child Soldiers Prevention Act کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عراق، میانمار اور افغانستان کو ان ممالک کی امریکی فہرست میں شامل نہ کیا جائے، جہاں جنگی مقاصد کے لیے نابالغ بچوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔

تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais

اس خفیہ میمو کے مطابق ٹلرسن نے یہ فیصلہ اس حقیقت کے باوجود کیا کہ خود انہی کی قیادت میں کام کرنے والا امریکی محکمہ خارجہ ملکی وزیر خارجہ کے اس اقدام سے قبل کھلم کھلا یہ اعتراف کر چکا تھا کہ ان تینوں ممالک میں نابالغ بچے فوجیوں کے طور پر بھرتی کیے جاتے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسنتصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin

افغان طالبان بچوں کو ٹیکے لگا کر خود کش بمبار بنا رہے ہیں

شام: پچاس سے زائد نوعمر فوجی ہلاک

امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ فہرست ہر سال تیار کی جاتی ہے اور اس میں عراق، میانمار اور افغانستان کے نام شامل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوں واشنگٹن حکومت کے لیے ان تینوں ریاستوں کو فوجی مدد فراہم کرنا آسان ہو گیا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ عراق اور افغانستان تو امریکا کے دو بہت قریبی اتحادی ممالک بھی ہیں، جہاں ملکی حکومتیں عسکریت پسند مسلمانوں کے خلاف طویل عرصے سے جنگی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

اس کے برعکس میانمار ابھی امریکا کا عراق اور افغانستان جیسا اتحادی ملک تو نہیں لیکن وہ واشنگٹن کا مسلسل ابھر کر سامنے آنے والا ایک اہم اتحادی ملک ضرور بنتا جا رہا ہے۔ میانمار کے ساتھ امریکا کی اس قربت کی وجہ واشنگٹن حکومت کی یہ خواہش ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں خطے کی ایک بڑی طاقت چین کے اثر و رسوخ کا توڑ نکالا جائے۔

ٹلرسن نے نابالغ فوجیوں کو استعمال کرنے والے ملکوں کی سالانہ امریکی فہرست سے افغانستان اور عراق کے ساتھ ساتھ میانمار کو بھی دانستہ طور پر نکال دیاتصویر: AP

جنگوں اور غربت کی وجہ سے بچوں کی زندگیاں اجیرن، یونیسیف

مسلح تنازعات کے سبب ايک سال ميں آٹھ ہزار بچے ہلاک يا زخمی

افغانستان کی ’لامتناہی جنگ‘ کا ایندھن بننے والے بچے

اس میمو کی روشنی میں یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ ریکس ٹلرسن نے بطور وزیر خارجہ اس حوالے سے عراق، افغانستان اور میانمار سے متعلق جو ’خلاف قانون‘ استثنائی فیصلہ کیا، وہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اپنے قانونی ماہرین، اسی محکمے کے انسانی حقوق کے دفتر، پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی سفیروں، اور ایشیا کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سفارت خانوں کے نگران دفتر خارجہ کے اپنے علاقائی شعبوں کے سربراہان کی متفقہ سفارشات کے بالکل برعکس کیا۔

روئٹرز نے یہ بھی لکھا ہے کہ اتنے زیادہ اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کی ٹلرسن پر اتنی غیر معمولی تنقید یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پیشہ ور سفارت کاروں اور وزیر خارجہ ٹلرسن کے مابین کشیدگی پائی جاتی ہے۔ ٹلرسن امریکی ملٹی نیشنل کمپنی ’ایکسون موبیل کارپوریشن‘ کے سابق سربراہ ہیں، جنہیں صدر ٹرمپ نے اپنی ’پہلے امریکا‘ کی پالیسی کے تحت غیر متوقع طور پر وزیر خارجہ بنا دیا تھا۔

پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب میں تیزی

02:29

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں