امریکی ریاست مسیسیپی نے اپنا پرچم بدلنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
1 جولائی 2020
امریکا سے شروع ہو کر کئی ممالک تک پھیل جانے والے نسل پرستی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا ایک بہت غیر معمولی نتیجہ نکلا ہے۔ نسل پرستی کے موضوع پر بحث کے دوران امریکی ریاست مسیسیپی نے اب اپنا پرچم بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اشتہار
مختلف ممالک اور خطوں کے پرچموں سے متعلق علوم کی جرمن سوسائٹی کے مطابق یہ اقدام امریکی تاریخ کا ایک بہت ہی غیر معمولی واقعہ ہے، جس کا سبب امریکا ہی میں افریقی نژاد شہری جارج فلوئڈ کی ایک پولیس کارروائی کے نتیجے میں موت بنی۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا اور امریکا کے اس وبائی مرض سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہونے کے باوجود اس سیاہ فام امریکی شہری کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت اتنا بڑا واقعہ ثابت ہوئی، جس کے خلاف کئی روز تک امریکا کے مختلف شہروں کے علاوہ دنیا کے بہت سے دیگر ممالک میں بھی وسیع تر احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے۔
مسیسیپی کے پرچم میں 'غلط‘ کیا تھا؟
یہ اسی بحث کا نتیجہ ہے کہ امریکی ریاست مسیسیپی نے اب اپنا پرچم بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بارے میں جرمنی کی سوسائٹی برائے فلیگ سٹڈیز کی مجلس عاملہ کے رکن ژورگ ماژیوسکی کہتے ہیں کہ ریاست مسیسیپی نے اپنا اسٹیٹ فلیگ بدلنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ اس میں موجودہ امریکا کے ریاست ہائے متحدہ بننے سے پہلے کے کنفیڈریشن دور کی باقیات اور نشانیاں موجود ہیں۔ یہ علامات اس دور کی باقیات ہیں، جب امریکا کی جنوبی ریاستوں میں ابھی غلامی کا دور تھا اور ماضی کی اس یادگار کو آج کے دور میں زندہ رکھنا اب سیاسی ا ور سماجی طور پر ناقابل قبول ہوتا جا رہا ہے۔
ژورگ ماژیوسکی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''اس طرح کی تنقید مختلف علاقوں میں مختلف طرح کی ہوتی ہے۔ کئی ریاستوں نے تو اپنے جھنڈے صدیوں سے نہیں بدلے۔ مثال کے طور پر ڈنمارک کے قومی پرچم کی اولین تصویر، جس کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے، 800 سال سے بھی زیادہ عرصہ پرانی ہے۔ دوسری طرف ایسی ریاستیں بھی ہیں، جنہوں نے بار بار اپنے پرچم بدلے ہیں۔ مثلاﹰ ہندوکش کی ریاست افغانستان جہاں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک نئے سربراہ حکومت کے اقتدار میں آتے ہی قومی پرچم بھی بدل گیا۔‘‘
مغربی معاشروں کے لیے ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ
ژورگ ماژیوسکی کے مطابق مغربی دنیا میں بالعموم اور امریکا میں بالخصوص کسی ریاست کا پرچم ہی بدل دینے کا مسیسیپی میں کیا جانے والا فیصلہ بہت ہی غیر معمولی ہے۔ ریاست ٹیکساس نے بھی میکسیکو سے آزادی حاصل کرنے کے بعد کئی مرتبہ اپنا جھنڈا بدلا تھا۔ اب مسیسیپی نے اپنا جو پرچم بدلنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ 120 سال سے اسٹیٹ فلیگ چلا آ رہا تھا۔
فلیگ سٹڈیز کے اس جرمن ماہر کے الفاظ میں، ''ریاست مسیسیپی کا تو پرچم بدلنے کا طریقہ کار بھی بہت غیر معمولی تھا۔ عام طور پر ایسی تبدیلی کا فیصلہ کر کے عام لوگوں یا ماہرین کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی تجاویز اور ڈیزائن پیش کریں، پھر نئے پرچم کے بارے میں ریاستی سینیٹ فیصلہ کرتی ہے۔ مسیسیپی میں یہ فیصلہ براہ راست اور خود اسٹیٹ سینیٹ نے کیا۔‘‘
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M:.Schreiber
7 تصاویر1 | 7
نسل پرستی اور غلامی کے دور کی علامت
اب مسیسیپی کا جو پرچم بدل دیا جائے گا، اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے بالائی بائیں کونے میں امریکی خانہ جنگی کے دور کا وہ کنفیڈریشن فلیگ بھی موجود تھا، جسے جنوبی ریاستوں کے عوام کافی پسند کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے ماہرین کے مطابق عوام کی ایک بڑی تعداد کی نظر میں امریکا میں ماضی کی جنوبی ریاستوں کی کنفیڈریشن کا یہی جھنڈا اپنے اندر نسل پرستی اور غلامی کے دور کی کئی علامات بھی لیے ہوئے ہے۔
ڈوئچے ویلے کے ساتھ انٹرویو میں ژورگ ماژیوسکی نے کہا، ''مسیسیپی کا پرچم بدلنے کا ریاستی سینیٹ کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ اس کے ساتھ جڑے ہوئے تاریخی بوجھ کے احساس سے نجات حاصل کی جائے۔ یعنی جو بات آج کے دور میں ماضی کی نسل پرستی اور غلامی کے عہد کی یاد دلاتی ہے، خود کو اس سے آزاد کرایا جائے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا اس بحث کی وجہ سے ممکن ہوا، جو اس وقت پوری دنیا، خاص کر امریکا میں جاری ہے اور جس کا موضوع اعلانیہ یا غیر اعلانیہ نسل پرستانہ رویے ہیں۔ نسل پرستانہ رویوں کے خلاف یہ بحث جارج فلوئڈ نامی اس افریقی نژاد امریکی شہری کی موت کے بعد شروع ہوئی، جو خود تو پولیس کی ایک کارروائی کے نتیجے میں انتقال کر گیا لیکن مرتے مرتے امریکا میں بہت کچھ تبدیل بھی کر گیا۔
ٹورسٹن لینڈزبرگ (م م / ع ا)
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔