نیو ہیمپشائرمیں ہیروئین کی وباء
9 فروری 2016فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق نیو ہیمپشائر کے سب سے بڑے شہر، مانچسٹر میں 2015ء کے دوران ہیروئین کے نشے کی زیادتی کے باعث 83 افراد ہلاک ہوئے۔ طبی عملے کو ہر روز عوامی ٹائلٹس، ریستورانوں، گاڑیوں اور غریب محلوں سے ہیروئین کے نشے سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ایمرجنسی کالز موصول ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے مانچسٹر کے فائر ڈیپارٹمنٹ کے کرسٹوفر ہیکی کہتے ہیں کہ ہیروئین کی وبا ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔
آج منگل نو فروری کو امریکی سیاسی جماعتوں کے صدارتی امیدواروں کی نامزدگی کے لیے نیو ہیمپشائر میں ابتدائی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں جماعتوں سے تعلق رکھن والے امیدواروں نے اس ریاست میں ہیروئین کی وباء کے خاتمے کا معاملہ اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کی صف اول کی میک اپ آرٹسٹ کرس بلیونز کا کردار اہم ہے۔ کرس بلیونز کئی صدارتی امیدواروں کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔ ان کی سوتیلی بیٹی ایمبر 2014 میں ہیروئین کے نشے کی زیادتی کے باعث ہلاک ہو گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد سے بلیونز صدارتی امیداروں کو اس مسئلے کے بارے میں آگاہ کر رہی ہیں۔
ایمبر، بلیونز کے شوہر کی اکلوتی اولاد تھیں۔ بلیونز کے مطابق ایمبر نے ذہنی بیماری کے لیے خواب آور ادویات کا استعمال شروع کیا تھا جو بڑھتے بڑھتے ہیروئین کے نشے تک پہنچ گیا۔ ایمبر کی ہلاکت کے بعد بلیونز نے نشے کے عادی افراد کے لیے ایک ایمرجنسی یونٹ بنایا ہے جس میں نشے کی زیادتی کرنے والے مریض دو ہفتے تک رہ سکتے ہیں اور اس دوران ان کا علاج کیا جاتا ہے اور ان کے رہنے کے لیے محفوظ مقام بھی تلاش کیا جاتا ہے۔
مانچسٹر کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر، ٹم ساؤسی کہتے ہیں، ’’جو بھی امریکا کا صدر بنے گا اسے اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہونا چاہیے، انہیں کانگریس کے ساتھ مل کر اس مسئلے کے حل کے لیے فنڈنگ مختص کرنا ہوگی۔‘‘
ٹِم ساؤسی کے مطابق، ’’نیو ہیمپشائر سے ہیروئین کی وباء کے خاتمے اور نشے کے مریضوں کے علاج کے لیے پیسے چاہییں اور اس کے ساتھ ساتھ اس ریاست کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گلیوں اور سڑکوں پر سے منشیات کے خاتمے کے لیے بھی فنڈنگ چاہیے۔‘‘