امریکی سائنسدان کا ریپ اور قتل: ’مجھ پر جن قابض تھے،‘ ملزم
13 اکتوبر 2020
یونان کے ایک کسان نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے ایک امریکی خاتون سائنسدان کو ریپ اور قتل کیا تھا۔ سوزن ایٹن ایک عالمی شہرت یافتہ مالیکیولر بیالوجسٹ تھیں اور ملزم کے بقول اس ریپ اور قتل کے وقت اس پر ’جن قابض تھے‘۔
اشتہار
یہ واردات گزشتہ برس دو جولائی کو یونانی جزیرے کریٹے کے ساحلی شہر چانیا کے نواح میں ہوئی۔ مقتولہ سائنسدان سوزن ایٹن جرمنی کے شہر ڈریسڈن کی یونیورسٹی کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کی ایک محققہ تھیں، جو چھٹیاں گزارنے کے لیے اس یونانی جزیرے پر گئی تھیں۔
جرمنی کےعادی قاتل
دنیا میں بھیانک اور سلسلہ وار جرائم کی وارداتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایسے مجرم بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں اور بعض انسانی گوشت کھاتے ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران جرمنی کے عادی قاتلوں پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Jaspersen
میونسٹر برگ کا آدم خور
کارلے ڈینکے نے کم از کم بیالیس افراد کا قتل کیا اور پھر اُن میں سے کئی کا گوشت بھی کھاتا رہا۔ زیادہ تر مقتولین کا تعلق دیہات سے تھا۔ یہ سن 1903 سے 1924 کے دوران سرگرم تھا۔ ایسا بھی خیال کیا گیا کہ اُس نے بعض مقتولین کا گوشت موجودہ پولینڈ کے شہر وراٹس وہاف میں سور کا گوشت قرار دے کر فروخت بھی کیا۔ ڈینکے نے جیل میں خود کو پھندا دے کر خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: 171413picture-alliance/arkivi
ہینوور کا خوف
جرمن شہر ہینوور میں فرٹز ہارمان نے کم از کم چوبیس لڑکوں اور لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کیا اور پھر اُن کی نعشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ یہ سن 1918 سے 1924 تک فعال رہا۔ اس کی وارداتوں سے ہینوور میں خوف و ہراس پیدا رہا۔ اس کا سر سن 1925 میں قلم کر دیا گیا تھا۔
کارل گراس مان نے جن افراد کو قتل کیا، اُن کے گوشت بھی وہ بلیک مارکیٹ میں اپنے ہاٹ ڈاگ اسٹینڈ پر فروخت کرتا رہا۔ اُس نے کتنے قتل کیے اُن کی تعداد کا علم نہیں لیکن اُس پر ایک سو سے زائد لاپتہ ہونے والے افراد کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی۔ اُس کے مکان کے قریب سے تیئیس خواتین کی ٹکڑوں میں تقسیم نعشیں ملی تھیں۔ اس نے سن 1922 میں موت کی سزا سے قبل خود کو پھندا لگا لیا تھا۔
تصویر: Gemeinfrei
جھیل فالکن ہاگن میں پھیلی دہشت
جرمن علاقے براڈن برگ کی جھیل فالکن بیرگ کے قرب جوار میں سن 1918 سے 1920 تک ایک تالے بنانے والے شخص، فریڈرش شُومان کی لرزہ خیز وارداتوں سے شدید خوف پیدا ہوا۔ اس شخص کی گرفتاری ایک جنگل کے گارڈ کے ساتھ لڑائی اور پھر اُس کے قتل کے بعد ہوئی۔ شومان نے کُل پچیس افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ اُسے اٹھائیس برس کی عمر میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
برلن ٹرام کا قاتل
پال اوگورٹسو پر جنسی زیادتی کے اکتیس واقعات کے ارتکاب کی فرد جرم عائد کی گئی۔ یہ نازی دور میں برلن میں چلنے والی ٹرام سروس میں ملازمت کرتا تھا۔ اُس نے آٹھ خواتین اور چھ دوسرے افراد کو سن 1940 اور 1941 میں قتل کیا۔ وہ چلتی ٹرام میں یہ وارداتیں کرتا تھا اور بعض اوقات وہ اپنے شکار کو چلتی ٹرین سے باہر پھینک دیتا تھا۔ اُس کو گرفتاری کے بعد موت کی سزا دی گئی۔
تصویر: Gemeinfrei
موت کا ہر کارہ
روڈولف پلائل سرحدی محافظ تھا۔ مشرقی جرمنی کے پہاڑی علاقے ہارٹس میں سن 1946 ہونے والی دو سالہ تعیناتی کے دوران سابقہ مشرقی حصے سے مغربی جرمنی کی جانب خواتین روانہ کرنے کے ناجائز کاروبار میں ملوث رہا۔ اس سرحدی محافظ نے پچیس افراد کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔ عدالت نے سن 1950 میں اُسے عمر قید کی سزا سنائی۔ پلائل نے آٹھ برس بعد جیل میں خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈوئیس بُرگ کا انسانی گوشت کھانے والا
ژوآخم گیرو کرول ایک عادی قاتل، بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے علاوہ انسانی گوشت کا بھی رسیا تھا۔ سن 1955 سے لے کر سن 1976 کے دوران 14 افراد کو قتل کیا۔ ان میں زیادہ تر خواتین تھیں۔ جب وہ سن 1976 میں گرفتار ہوا تو اُس کا ریفریجریٹر انسانی گوشت سے بھرا تھا۔ گرفتاری کے وقت وہ ایک چار سالہ بچی کے ہاتھ اور پاؤں پکا رہا تھا۔ کرول کو عمر قید کی سزا ہوئی لیکن سن 1991 میں ہارٹ اٹیک سے مرا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Sieländer
دُھوئیں نے قاتل بے نقاب کر دیا
فرٹز ہونکا نے سن 1970 سے 1975 کے درمیان چار خواتین طوائفوں کو گلہ گھونٹ کر پہلے ہلاک کیا اور پھر اُن کی نعشوں کے ٹکڑے کر کے اپارٹمنٹ میں رکھ دیے۔ ایک دن اپارٹمنٹ والی بلڈنگ میں آگ لگ گئی اور پھر فائر فائٹرز کو وہ انسانی ٹکڑے دستیاب ہوئے۔ ہونکا اُس وقت کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ عدالت نے اُسے نفسیاتی مریض قرار دے کر پندرہ برس کی سزائے قید سنائی۔ وہ 1993 میں رہا ہوا اور پانچ برس بعد مرا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سینٹ پاؤلی کا قاتل
ہیمبرگ کے بازار حسن والے علاقے سینٹ پاؤلی میں ویرنر پِنسر ایک کرائے کے قاتل کے طور پر مشہور تھا۔ اُس نے سات سے دس ایسے افراد کا قتل کیا جو جسم فروش خواتین کی دلالی کرتے تھے۔ اُس نے تفتیش کے دوران اچانک پستول نکال کر پہلے تفتیش کار کو ہلاک کیا پھر اپنی بیوی کے بعد خود کو بھی گولی مار لی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
زہر سے موت دینے والی
جرمن شہر کولون کی نرس ماریانے نؤل اپنے مریضوں کو زہر کا ٹیکا لگا کر موت دیتی تھی۔ اُس نے سن 1984 سے لے کر سن 1992 کے دوران سترہ افراد کو زہر دے کر ہلاک کیا اور دیگر اٹھارہ کو مارنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ گئے۔ اُس نے کبھی اعتراف جرم نہیں کیا۔ وہ اس وقت عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/DB
شاہراؤں کا قاتل
فولکر ایکرٹ ٹرک چلایا کرتا تھا۔ اُس نے سن 2001 کے بعد پانچ برسوں میں نو خواتین کو قتل کیا۔ اُس نے پہلا قتل پندرہ برس کی عمر میں اپنی کلاس فیلو کا گلا گھونٹ کر کیا۔ ایکرٹ کے ہاتھوں قتل ہونے والی زیادہ تر خواتین طوائفیں تھیں۔ اُس نے دورانِ مقدمہ سن 2007 میں پھندا لگا کر خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: Imago
موت کا فرشتہ
اسٹیفان لیٹر مرد نرسنگ اسٹاف سے منسلک تھا۔ اُس نے ہسپتال میں نوکری کرتے ہوئے باویریا میں انتیس افراد کو زہریلے انجکشن لگائے۔ یہ وارداتیں اُس نے سن 2003-04 میں کی تھیں۔ دوا کی چوری پر گرفتار ہوا اور پھر اُس نے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا۔ اُس کا کہنا ہے کہ اُس نے لاعلاج مریضوں کو موت کے ٹیکے لگا کر راحت پہنچائی ہے۔ وہ اس وقت عمر قید بھگت رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/U. Lein
قاتل مرد نرس
نیلز ہؤگل کا مقدمہ اس وقت جرمن عدالت میں زیرسماعت ہے۔ اُس نے ایک سو مریضوں کو خطرناک ٹیکے لگانے کا اعتراف کیا ہے۔ اس کو سن 2015 میں دو افراد کی ہلاکت کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ وسیع تر تفتیش کے دوران اُس کو ایک سو سے زائد مریضوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اُس کا مقدمہ اولڈن بیرگ کی عدالت میں سنا گیا اور ابھی سزا کا تعین ہونا باقی ہے۔ امکاناً اُسے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Jaspersen
13 تصاویر1 | 13
کریٹے کے جزیرے کے شہر ریتِھمنو میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران پولیس نے منگل کے روز عدالت کو بتایا کہ 59 سالہ امریکی خاتون کا مشتبہ قاتل ایک مقامی کسان ہے، جس نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔ تاہم اس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت وہ آپے میں نہیں تھا اور اس پر 'جنوں نے قبضہ‘ کر رکھا تھا۔
'مجھے جن حکم دے رہے تھے‘
عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم نے اپنے جرم کا چند گھنٹوں کی تفتیش کے دوران ہی اعتراف کر لیا تھا۔
ملزم کا نام یانِس پاراس کاکِس ہے، جو شادی شدہ اور دوبچوں کا باپ ہے۔
اس کی عمر 28 سال ہے اور وہ ایک پادری کا بیٹا ہے۔ اس پر قتل، ریپ اور غیر قانونی ہتھیار رکھنے کے الزامات ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم کے بقول اس نے جو بھی کیا، وہ خود اس کا مرتکب نہیں ہوا تھا بلکہ اس کو 'قبضے میں لینے والے جن اسے حکم دے رہے تھے‘۔
مقدمے کے دستاویزی ریکارڈ کے مطابق سوزن ایٹن کو جس روز ریپ اور قتل کیا گیا، اس دن وہ ہائکنگ کے لیے نکلی ہوئی تھیں اور ان کا موبائل فون ان کے پاس نہیں تھا۔ ملزم نے پہلے تو ایک دیہی سڑک پر اپنی گاڑی ان پر چڑھا دی اور پھر انہیں اپنی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر کافی دور لے گیا۔
مایورکا جرمن سیاحوں کا پسندیدہ جزیرہ کیوں؟
کورونا وائرس کے اس بحران کے دور میں بھی ہسپانوی جزیرہ مایورکا سیاحت کے اعتبار سے موسم گرما کے سرفہرست یورپی مقامات میں سے ایک ہے۔ جرمن باشندے بحیرہ روم میں واقع اس جزیرے کو بہت پسند کرتے ہیں۔ لیکن اس محبت کی وجہ کیا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Reiner
اس سے بہتر جگہ بھلا کون سی ہو سکتی ہے؟
مایورکا کی ساحلی پٹی کم از کم پانچ سو کلومیٹر طویل ہے۔ یہ علاقہ متعدد چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے۔ یہ کالا فورمینتور کی تصویر ہے، یہاں خزاں تک موسم گرم ہی رہتا ہے۔ اس وجہ سے یہ سیاحوں کے پسندیدہ مقامات میں سے ایک ہے۔ مایورکا کے جزیرے پر ہر معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کے لیے رہائش دستیاب ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/D. Schoenen
ابتدا کیسے ہوئی؟
1833ء میں بارسلونا سے مایورکا کے مابین فیری سروس شروع ہوئی۔ اس وقت کم ہی لوگ اس جزیرے پر جاتے تھے۔ مصنف جارج سینڈ اور پیانو نواز فریڈیرک شوپیں نے 1838-39 کا موسم سرما والڈیموسا کے ایک راہب خانے میں گزارا۔ یہ تصویر اسی پہاڑی گاؤں کی ہے۔ یہاں قیام کے دوران جارج سینڈ نے ایک ناول بھی لکھا، جس میں اس جزیرے کا تفصیلی ذکر ہے۔ اس کے شائع ہونے کے بعد بڑی تعداد میں سیاحوں نے مایورکا کا رخ کرنا شروع کیا۔
بیسویں صدی کے آغاز پر یہاں زیادہ تر سیاح ہسپانوی علاقوں اور برطانیہ سے آتے تھے۔ وہ یہاں فطرت اور رومان تلاش کرتے تھے۔ مایورکا کے کئی ساحل آج بھی مکمل طور پر اپنی اصل حالت میں ہیں، یعنی وہاں کوئی تعمیرات نہیں کی گئیں۔ 1935ء میں یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد پچاس ہزار تھی، 1950ء میں ایک لاکھ جبکہ 1960ء میں دس لاکھ سیاحوں نے اس جزیرے کا رخ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Schmidt
ساحلی علاقوں کی سیاحت میں اضافہ
1960ء کی دہائی میں سیاحت کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا۔ ساحلوں کے قریب بڑے بڑے ہوٹل تعمیر کیے گئے اور بڑی بڑی سیاحتی کمپنیوں نے ان میں سرمایہ کاری کی۔ جرمن شہریوں کو چھٹیاں گزارنے کے لیے ایسے مقامات کی تلاش تھی، جو سستے بھی ہوں اور جہاں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔ مایورکا کے ہسپانوی جزیرے پر انہیں یہ سب کچھ میسر آ گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Margais
پالما: ثقافت اور ساحلوں والا شہر
پالما مایورکا کا صدر مقام ہے۔ تصویر میں موجود یہ 400 سال پرانا کلیسا اس شہر کی پہچان ہے اور سب سے زیادہ سیاح اسی کو دیکھنے آتے ہیں۔ کورونا سے قبل یہاں کے چار لاکھ باسی سیاحوں کی بڑی تعداد سے پریشان تھے اور خاص طور پر سیاحوں سے بھرے ہوئے ان دیو ہیکل تفریحی بحری جہازوں سے، جو اس شہر کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے تھے۔ 2019ء میں ستر لاکھ غیر ملکی سیاحوں نے مایورکا میں کم از کم ایک رات گزاری تھی۔
تصویر: picture-alliance/ZB/J. Kalaene
اپنی طرف بلاتے ہوئے پہاڑ
پر خطر کھیلوں اور چیلنجز کو پسند کرنے والے ترامنتانا کے پہاڑی سلسلے کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں پر چند چوٹیوں کی اونچائی ایک ہزار میٹر تک ہے، جو اس جزیرے کے شمال سے مغربی حصے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان پہاڑوں پر سائیکل سواروں اور پیدل چلنے والوں کے لیے حیرت انگیز راستے موجود ہیں۔
پانی سے مایورکا کو تسخیر کرنا ایک انتہائی منفرد تجربہ ہے۔ جو لوگ کوئی پرتعیش کشتی کرائے پر نہیں لے سکتے، وہ کم از کم کالا فیگوئیرا کی یہ بندرگاہ یا پورٹ سولیئر گھوم پھر سکتے ہیں۔ ماضی میں مایورکوئن کے پہاڑوں میں اگائے جانے والے سنگترے اسی بندرگاہ کے راستے بحری جہازوں پر فرانس بھیجے جاتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Tack
فِنکا، سیاحوں کے بڑے ہوٹلوں کا متبادل
سیاحوں کے رش، شور شرابے اور بھرے ہوئے ساحلوں سے دور بھاگنے والے افراد ’فِنکا‘ کرائے پر لے سکتے ہیں۔ ’فِنکا‘ دور دراز کے علاقوں میں بنی دیہی قیام گاہوں کو کہتے ہیں۔ مایورکا پر بنائی گئی ’فِنکاز‘ میں تمام تر سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ مایورکا پر ہر کسی کے لیے تفریح کا سامان موجود ہے کیونکہ ہر سال جو چالیس لاکھ جرمن سیاح چھٹیاں گزارنے کے لیے اس جزیرے کا رخ کرتے ہیں، وہ بہرحال کوئی غلطی تو نہیں کرتے!
لاش کا پتا چھ روز بعد وہاں غاروں کی سیر کے لیے جانے والے چند افراد سے چلا۔ ملزم نے بعد میں کہا کہ خاتون حادثاتی طور پر اس کی گاڑی کے نیچے آ گئی تھیں۔
بین الاقوامی سطح کی سائنسدان
مقدمے کی سماعت کے آغاز پر وکیل استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ سوزن ایٹن ایک بین الاقوامی سطح کی ماہر حیاتیات تھیں، جن کے قتل سے دنیا ایک ماہر ریسرچر سے محروم ہو گئی۔
امریکا میں اوک لینڈ میں پیدا ہونے والی سوزن ایٹن برطانوی سائنسدان انتھونی ہائمن کی اہلیہ تھیں اور ان کے دو بچے ہیں۔ سوزن ایٹن کی بہن کے مطابق ان کے شوہر اب تک اپنی اہلیہ کی موت کے صدمے سے نہیں نکل سکے۔
م م / ش ج (اے ایف پی، اے پی)
’کم عمر لڑکی کا ریپ اور قتل، پورا ارجنٹائن سڑکوں پر نکل آیا‘
ارجنٹائن میں ایک 16 سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس گھناؤنے جرم کے خلاف ملک بھر میں خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
جنسی زیادتی کے خلاف احتجاج
ارجنٹائن کی عورتیں اور مرد 16 سالہ لڑکی لوسیا پیریز کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے خلاف بڑی تعداد میں سٹرکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت نے کالے لباس پہن کر ہلاک شدہ لڑکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Abramovich
ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل
گزشتہ برس جون میں بھی کئی ایسے واقعات کے بعد غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا تاہم اس بار لوسیا پیریز کی ہلاکت کے بعد بہت بڑی تعداد میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے اٹھائے گئے پلے کارڈز پر لکھا ہے،’’اگر تم نے ہم میں سے کسی ایک کو ہاتھ لگایا تو ہم سب مل کر جواب دیں گی۔‘‘ ایک اندازے کے مطابق ارجنٹائن میں ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل کر دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. R. Caviano
پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا
لوسیا پیریز آٹھ اکتوبر کو ریپ اور تشدد کا نشانہ بننے کے بعد جانبر نہ ہوسکی تھی۔ پراسیکیوٹر ماریہ ایزابل کا کہنا ہے کہ پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا تھا اور ’غیر انسانی جنسی تشدد‘ کے باعث اس لڑکی کے حرکت قلب بند ہو گئی تھی۔ مجرموں نے اس کے مردہ جسم کو دھو کر صاف کر دیا تھا تاکہ یہ جرم ایک حادثہ لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے
پولیس کے مطابق ایک اسکول کے باہر منشیات فروخت کرنے والے دو افراد کو پولیس نے اس جرم کے شبے میں حراست میں لے لیا ہے۔ لوسیا پیریز کے بھائی ماتھیاز کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے ذریعے مزید لڑکیوں کو ظلم کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ماتھیاز نے کہا، ’’اب ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے، ہمیں باہر نکل کر یہ زور زور سے بتانا ہوگا۔‘‘