امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی پر مظاہرے، 41 افراد ہلاک
14 مئی 2018
تل ابیب میں واقع امریکی سفارتخانہ آج پیر 14 مئی کو یروشلم منتقل کر دیا گیا۔ اس تناظر میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ بھی شریک ہوئیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ چودہ مئی بروز پیر اسرائیل میں واقع امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس متنازعہ فیصلے پر عملدرآمد کیے جانے پر فلسطین میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ پورا یروشلم اسرائیل کا ’اٹوٹ انگ‘ ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی پر ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور سینیئر مشیر جیرڈ کوشنر اور ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ بھی شریک ہوئیں۔ اس تقریب میں تقریباﹰ آٹھ سو شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اس تقریب کے دوران ویڈیو لنک سے خطاب کیا۔
اس موقع پر فلسطین میں مغربی اردن اور غزہ پٹی میں مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ غزہ کے طبی حکام نے بتایا ہے کہ غزہ پٹی میں ہونے والے مظاہروں کے دوران بھڑکنے والے تشدد میں اکتالیس فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان مظاہرین نے اسرائیل میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اسرائیلی فورسز نے فائرنگ کر دی۔ غزہ حکام نے کہا ہے کہ اس تشدد کی وجہ سے پانچ سو افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔
عرب اسرائیل جنگ کے پچاس برس مکمل
پچاس برس قبل عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: AFP/Getty Images
اسرائیلی فوج نے حملے کے بعد تیزی کے ساتھ پیش قدمی کی
پانچ جون کو اسرائیلی فوج نے مختلف محاذوں پر حملہ کر کے عرب افواج کی اگلی صفوں کا صفایا کر دیا تا کہ اُسے پیش قدمی میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
اسرائیلی فوج نے حملے میں پہل کی تھی
عالمی برادری اور خاص طور پر امریکا اِس جنگ کا مخالف تھا اور اُس نے واضح کیا کہ جو پہلے حملہ کرے گا وہی نتائج کا ذمہ دار ہو گا مگر اسرائیلی فوجی کمانڈروں کا خیال تھا کہ حملے میں پہل کرنے کی صورت میں جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
تصویر: Keystone/ZUMA/IMAGO
مشرقی یروشلم پر بھی اسرائیل قابض ہو گیا
اسرائیلی فوج کے شیرمین ٹینک دس جون سن 1967 کو مشرقی یروشلم میں گشت کرتے دیکھے گئے تھے۔ شیرمین ٹینک امریکی ساختہ تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Guillaud
چھ روز جنگ میں اسرائیلی فوج کو فتح حاصل ہوئی
اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کا کئی علاقوں پر قبضہ، پھر اُن کا اسرائیل میں انضمام اور دنیا کے مقدس ترین مقامات کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں پیدا تنازعہ مزید شدت ہو گیا۔
تصویر: Imago/Keystone
عرب افواج کے جنگی قیدی
پچاس برس قبل اسرائیلی فوج نے حملہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا اور بے شمار فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا۔
تصویر: David Rubinger/KEYSTONE/AP/picture alliance
جزیرہ نما سینائی میں اسرائیلی فوج کی کامیاب پیش قدمی
مصر کے علاقے جزیرہ نما سینائی میں مصری افواج اسرائیل کے اجانک حملے کا سامنا نہیں کر سکی۔ بے شمار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اسرائیلی فوج نے مصری فوج کی جانب سے خلیج تیران کی ناکہ بندی کو بھی ختم کر دیا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
ہر محاذ پر عرب ممالک کو پسپائی کا سامنا رہا
غزہ پٹی پر قبضے کے بعد ہتھیار پھینک دینے والے فوجیوں کی پہلے شناخت کی گسی اور پھر اسرائیلی فوج نے چھان بین کا عمل مکمل کیا گیا۔
تصویر: Picture-alliance/AP/Keystone/Israel Army
7 تصاویر1 | 7
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیلی میں امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیں گے۔ اس فیصلے سے واشنگٹن حکومت کی اسرائیل فلسطینی تنازعے پر غیر جانبداریت ختم ہو گئی، جس پر امریکا کے متعدد اتحادی ممالک نے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ یورپی یونین نے اس امریکی فیصلے پر سخت تنقید بھی کی ہے۔ اسرائیل کے قیام کے 70 برس مکمل ہونے کے موقع پر امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کیا جا رہا ہے۔
مقامی میڈیا نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیر کے دن ہونے والی تقریب میں امریکی سفارتخانہ یروشلم میں پہلے سے واقع قونصل خانے میں منتقل کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یروشلم میں امریکی سفارتخانے کی باقاعدہ عمارت کی تعمیر کے لیے ایک بڑی جگہ کا انتخاب کیا جائے گا اور تمام انتظامی معاملات نمٹانے کے بعد تل ابیب سے امریکی سفارتخانے کو مکمل طور پر یروشلم منتقل کر دیا جائے گا۔
اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا تھا۔ بعد ازاں اس مقبوضہ علاقے کو اسرائیل کا حصہ بنا لیا گیا تھا تاہم بین الاقوامی کمیونٹی نے کبھی بھی مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا حصہ تصور نہیں کیا بلکہ اسے مقبوضہ علاقہ ہی قرار دیا جاتا ہے۔
سن انیس سو ترانوے میں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین معاہدوں کے مطابق یروشلم کے مستقبل کا فیصلہ امن مذاکرات کے آخری مراحل میں کیا جانا ہے۔ تاہم اسرائیل اور فلسطینی حکام کے مابین یہ امن عمل تعطل کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ مقبوضہ یروشلم میں یہودی آباد کاری بھی ہے۔
مشرقی یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیل اس متنازعہ علاقے میں درجنوں بستیاں کا تعمیر کر چکا ہے، جہاں تقریبا دو لاکھ یہودیوں کو آباد کیا جا چکا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت ان بستیوں کو غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے تاہم اسرائیلی حکومت انہیں جائز قرار دیتی ہے۔
ع ب / ا ع / خبر رساں ادارے
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔