امریکی سفارتخانے میں روسی خاتون جاسوس دس سال تک کام کرتی رہی
3 اگست 2018
روسی دارالحکومت ماسکو کے امریکی سفارت خانے میں ایک مبینہ روسی جاسوس دس سال سے بھی زائد عرصے تک کام کرتی رہی اور کسی کو خبر ہی نہ ہوئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس روسی خاتون کے جاسوس ہونے کا انکشاف کچھ عرصہ قبل ہوا۔
روسی دارالحکومت ماسکو میں امریکی سفارت خانے کی عمارتتصویر: Getty Images/AFP/K. Kudryavtsev
اشتہار
اس روسی خاتون شہری کو ماسکو کے امریکی سفارت خانے میں ملازمت اس امریکی سیکرٹ سروس نے دی تھی، جو اپنے فرائض کے لحاظ سے امریکی صدر کی سلامتی کی ذمے دار ہوتی ہے۔ برطانوی اخبار ’ٹیلیگراف‘ اور امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹوں کے مطابق اس روسی شہری کے ممکنہ طور پر ایک جاسوس ہونے کا شبہ امریکی حکام کو اس وقت ہوا، جب واشنگٹن میں ملکی وزارت خارجہ کے حکام نے معمول کے مطابق امریکی سفارت خانوں کے ملازمین کا ’سکیورٹی چیک‘ کیا۔
اس چھان بین کے نتیجے میں پتہ یہ چلا کہ ماسکو میں امریکی سفارت خانے کی اس اہلکار نے روسی خفیہ سروس ایف ایس بی کے اہلکاروں کے ساتھ باقاعدگی سے کئی ایسی ملاقاتیں کی تھیں، جن کے لیے نہ تو کوئی باقاعدہ اجازت لی گئی تھی اور جن کا نہ ہی کہیں کوئی ذکر تھا۔
اس کے علاوہ اس خاتون کو سیکرٹ سروس کے ارکان کے ای میل سسٹم اور داخلی انٹرنیٹ یا ’انٹرانیٹ‘ تک بھی رسائی حاصل تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ممکنہ طور پر حساس امریکی ڈیٹا اس خاتون کی پہنچ میں تھا۔ تاہم سی این این کے مطابق اس روسی شہری کو ایسی معلومات تک رسائی حاصل نہیں تھی، جنہیں سفارت خانے یا سیکرٹ سروس کی طرف سے ’انتہائی خفیہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔
اس روسی خاتون کو ماسکو کے امریکی سفارت خانے میں ملازمت اس امریکی سیکرٹ سروس نے دی تھی، جس کا کام امریکی صدر کی حفاظت ہوتا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Kaster
امریکی سیکرٹ سروس کی واقعے کو چھپانے کی کوشش
برطانوی جریدے ’ٹیلیگراف‘ کے مطابق امریکی وزارت خارجہ اور سفارتی حلقوں میں ایک ایسے ذریعے نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا، بتایا کہ امریکی سیکرٹ سروس نے اس واقعے کا علم ہو جانے کے بعد اسے چھپانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی اس روسی جاسوس کو ماسکو میں امریکی سفارت خانے کی ملازمت سے فارغ بھی کر دیا گیا۔
جاسوسوں کو ان زہروں سے ہلاک کرنا ممکن ہے
کم از کم پانچ ایسے زہریلے مادے ہیں، جن کے استعمال سے جاسوسوں کو ہلاک کرنے کا پتہ ملتا ہے۔ ان میں سے چار کے استعمال کے مصدقہ ثبوت بھی موجود ہیں۔
تصویر: Imago/RelaXimages
پولونیم ٹُو ٹین
سن 2006 میں لندن میں مقیم روسی جاسوس الیگزانڈر لِٹیونینکو کو اسی کیمیائی مادے کے استعمال سے ہلاک کیا گیا تھا۔ برطانوی تفتیش کاروں کے مطابق یہ مواد سابقہ روسی جاسوس کے کسی ساتھی نے ملاقات کے دوران اُن کی چائے میں ملا دیا تھا۔ پولونیم ٹُو ٹین ایک ایسا کیمیائی مواد ہے، جو بازاروں میں دستیاب نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Driessen
رائسین
یہ بھی ایک انتہائی خطرناک زہر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی معمولی مقدار سے کسی کو بھی ہلاک کرنا مشکل نہیں ہوتا کیونکہ رائسین میں شامل کیمیائی مادے انسان کے اعصابی و جسمانی نظام کو بتدریج مفلوج کرتا جاتا ہے۔ یہ زہر ارنڈ یا کیسٹر کے پودے کے بیج سے حاصل کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPhoto
وی ایکس
اس زہر کے استعمال سے گزشتہ برس شمالی کوریائی سپریم لیڈر کم جونگ اُن کے سوتیلے بھائی کم جونگ نام کو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالم پور کے ہوائی اڈے پر قتل کیا گیا تھا۔ یہ بھی اعصابی نظام کو مفلوج کرنے والا خطرناک کیمیکل ہے۔ اس کی انتہائی معمولی مقدار کسی بھی بالغ یا بچے کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ شمالی کوریا کے پاس اس کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Chan
بوٹوکس
یہ ایک ایسا زہریلا مادہ ہے، جو حالیہ دور میں کوسمیٹک میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بوٹوکس (Clostridium Botulinum) کو اگر خوراک میں ڈال دیا جائے تو وہ انتہائی زہریلی ہو جاتی ہے۔ اس زہر کے استعمال کے بعد انسانی جسم کی صورت ٹیٹنس انفیکشن جیسی ہوسکتی ہے۔ اس کا استعمال انسانی اعصابی نظام مفلوج کر دیتا ہے۔ عراق میں سابق آمر صدام حسین کے دور میں بوٹوکس کو ایک ہتھیار کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔
تصویر: DW
بی ٹی ایکس
یہ ایک انتہائی زہریلا مادہ ہے۔ اس کو سب سے پہلے لاطینی امریکا میں ناپید ہونے والی مینڈکوں کی نسل میں دریافت کیا گیا تھا۔ بی ٹی ایکس کی انتہائی قلیل مقدار ایک انسان کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد دل کے مَسل یا عضلات کو مفلوج کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ زہر لیبارٹریز میں تیار نہیں کیا جا سکتا۔
تصویر: Fotolia/DWaEbP
5 تصاویر1 | 5
ظاہری طور پر اس روسی شہری کو باقاعدہ یہ کہہ کر ملازمت سے فارغ نہیں کیا گیا تھا کہ وہ ایک جاسوس ہے اور اس کی اصلیت کا امریکی حکام کو علم ہو گیا تھا۔ اس کے برعکس اس جاسوس کو ماسکو میں امریکی سفارت خانے کے قریب 750 دیگر ملازمین کے ساتھ نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔
ان سینکڑوں روسی ملازمین کو امریکی سفارت خانے نے اپنے ہاں ملازمتوں سے اس وجہ سے برطرف کر دیا تھا کہ تب ایسا روس پر لگائے گئے ان الزامات کے ردعمل میں کیا گیا تھا کہ ماسکو نے 2016ء کے امریکی صدارتی الیکشن میں مداخلت کی تھی۔
سی این این کے مطابق یہ بات بھی اہم ہے کہ اس جاسوس کی اصلیت کا علم ہو جانے کے بعد امریکی سیکرٹ سروس نے اپنی طرف سے اس معاملے کی کوئی داخلی چھان بین بھی شروع نہیں کی تھی تاکہ اس روسی جاسوس کی وجہ سے امریکا کو پہنچنے والے ممکنہ نقصانات کا تعین کیا جا سکے۔
اس بارے میں ’ٹیلیگراف‘ اور سی این این نے امریکی سیکرٹ سروس کے ایک وضاحتی بیان کا حوالہ بھی دیا ہے، جس میں محض اتنا ہی کہا گیا ہے، ’’تمام غیر ملکی ملازمین ممکنہ طور پر ایسے ہدف بن سکتے ہیں کہ کوئی بھی غیر ملکی سیکرٹ سروس ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے۔ لیکن ایسے ملازمین کبھی بھی ایسی حالت میں نہیں تھے کہ امریکا کی قومی سلامتی سے متعلق اہم معلومات ان کی دسترس میں رہی ہوں۔‘‘
اس بارے میں اے ایف پی نے جب امریکی سیکرٹ سروس اور وزارت خارجہ سے رابطے کیے تو سیکرٹ سروس نے اس موضوع پر کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا جبکہ واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی چھان بین کی جا رہی ہے۔
م م / ش ح / اے ایف پی
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔