امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی، روڈ سائن لگ گئے
7 مئی 2018
اسرائیلی حکام نے یروشلم میں ایسے روڈ سائنز یا راستے کی نشاندہی کرنے والے بورڈ لگا دیے ہیں جو امریکی سفارت خانے کو جانے والے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ امریکی سفارت خانہ آئندہ ہفتے تل ابیب سے یروشلم منتقل ہونا ہے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس دسمبر میں یہ متنازعہ اعلان کیا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں اور یہ کہ امریکی سفارت خانہ جلد ہی تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا جائے گا۔ اسرائیل نے اس امریکی فیصلے کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا تھا۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان یروشلم شہر کی حتمی حیثیت انتہائی متنازعہ ہے۔ فلسطینی اپنی مستقبل کی خود مختار ریاست کا دارالحکومت مشرقی یروشلم کو بنانا چاہتے ہیں جبکہ اسرائیل پورے یروشلم پر اپنی ملکیت کا دعویدار ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے پر دنیا بھر میں تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس فیصلے کو بھاری اکثریت کے ساتھ ہدف تنقید بنایا تھا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق آج پیر سات مئی کو یروشلم کے میئر نیر برکات نے پہلا ایسا روڈ سائن نصب کیا، جو امریکی عبوری ایمبیسی کمپاؤنڈ جانے والے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔ شیڈول کے مطابق یروشلم میں امریکی سفارتی مشن نے 14 مئی سے کام شروع کرنا ہے۔
یروشلم کے میئر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’یہ خواب نہیں، حقیقت ہے۔ یروشلم یہودی لوگوں کا ابدی دارالحکومت ہے اور دنیا نے اس حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘
امریکی وزارت خارجہ کے حکام کے مطابق ابتدائی طور پر یہ مشن ایک عبوری سفارت خانہ ہے جو ایک ایسی عمارت میں کھولا جا رہا ہے جو اس وقت یروشلم میں امریکی قونصل خانے کے تحت قائم ہے۔ تاہم یروشلم میں مستقل امریکی سفارت خانے کی جگہ کا تعین کیا جانا ابھی باقی ہے۔
اسرائیلی حکام کی طرف سے آج پیر ہی کے روز یہ اعلان بھی کیا گیا کہ رواں ماہ کے اختتام تک پیراگوئے بھی اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دے گا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان ایمانوئل ناہشون کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پیراگوئے کے صدر ہوراسیو کارٹیس رواں ماہ کے اختتام تک اسرائیل آ کر اپنے ملک کے سفارت خانے کا افتتاح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ گوئٹے مالا بھی قبل ازیں اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔