1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی سفیر کی جانب سے'آزاد کشمیر‘ کہنے پر بھارت ناراض

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
8 اکتوبر 2022

اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اپنے حالیہ دورے کے دوران کئی بار 'آزاد کشمیر' کا لفظ استعمال کیا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اس نے امریکہ کو اپنے اعتراضات سے آگاہ کر دیا ہے۔

Pakistan | Razia Sultana, Tochter von Yasin Malik
تصویر: Privat

بھارتی وزارت خارجہ نے جمعے کے روز اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران اسلام آباد میں امریکی سفیر کے پاکستان کے زیر انتظام خطہ کشمیر کے دورے پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ اس حوالے سے بھارتی موقف سے امریکہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفیر ڈونالڈ بلوم نے چند روز قبل ہی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا تھا اور وہاں کئی حلقوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

بھارت نے کیا کہا؟     

نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی سے جب اس بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، "پاکستان میں امریکی سفیر کے پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے دورے اور ان کی ملاقاتوں پر ہمارے اعتراضات سے متعلق امریکی فریق کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔"

انٹرنیٹ کی بندش، کشمیریوں کے لیے ’پتھر کے دور‘ کی طرح

واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں کسی بھی امریکی سینیئر اہلکار کی جانب سے پاکستانی خطہ کشمیر کا یہ اہم دورہ تھا، جہاں انہوں نے بات چیت کے دوران کئی بار اسے "آزاد کشمیر" کہا۔ بھارت اس بات سے بھی سخت برہم ہے اور اطلاعات کے مطابق اس نے امریکی حکام سے اس پر سخت اعتراض کیا ہے۔

بھارت پاکستان کے زیر انتظام خطہ کشمیر کو بھی اپنا علاقہ بتاتا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ اس خطے پر پاکستان نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے اور اسے ایک دن بھارت میں ضم کرنا ہے۔  

بھارت نے کشمیر سے متعلق پاکستانی وزیر اعظم کے بیانات کو مسترد کر دیا

  بھارت "آزاد کشمیر" کے نام کے اس خطے میں کسی بھی بیرونی افراد کے سفر پر سخت رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔ اپریل میں جب امریکی کانگریس کی خاتون رکن الہان عمر نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا تھا، تو اس وقت بھی بھارت نے شدید رد عمل ظاہر کیا تھا۔

اس وقت بھارت نے کہا تھا، "ہم نے نوٹ کیا ہے کہ امریکی کانگریس کی مندوب الہان عمر نے بھارت کے ہی جموں و کشمیر کے علاقے کے ایک حصے کا دورہ کیا ہے، جو اس وقت غیر قانونی طور پر پاکستان کے زیر قبضہ ہے۔"

ایک سینیئر کشمیری صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ دنیا کو کشمیر کی صورتحال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہےتصویر: Mukhtar Khan/AP/picture alliance

 ہم کر بھی کیا سکتے ہیں

ڈی ڈبلیو اردو نے جب ایک سینیئر کشمیری صحافی سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ دنیا کو کشمیر کی صورتحال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا، "خاص طور پر بھارتی کشمیر میں، جہاں تقریبا ایک کروڑ کشمیری مسلمانجبرو ظلم پر مبنی غلامی کی گھٹن کی شکار ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "ہم کر بھی کیا سکتے ہیں، گزشتہ تین برسوں سے ہم پو جو گزر رہی ہے، کیا دنیا اس سے واقف نہیں ہے، تاہم خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اگر کشمیریوں کو بھی انسان سمجھتے ہیں، تو پوری دنیا کو کشمیر پر بات کرنی چاہیے تاکہ ان کی بے چینی، گھٹن اور اتنی بڑے فوجی تسلط سے کچھ تو راحت مل سکے۔"

امریکی سفیر کا دورہ کشمیر

پاکستان میں امریکی سفیر ڈونالڈ بلوم نے دو سے چار اکتوبر کے دوران پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا تھا۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ آزاد جموں و کشمیر کے دورے کا مقصد "امریکہ اور پاکستان کے درمیان شراکت داری کو فروغ دینے اور دونوں ممالک کے گہرے اقتصادی، ثقافتی اور عوام کے درمیان تعلقات کو اجاگر کرنا تھا۔"

 وادی کشمیر میں انہوں نے اپنے قیام کے دوران "آزاد کشمیر" کے وزیر اعظم تنویر الیاس اور تعلیمی، کاروباری، ثقافتی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔

اس دورے کے دوران امریکی سفیر نے کئی بار اس خطے کو "آزاد کشمیر" کے نام سے پکارا۔ بعد میں انہوں نے اپنے سرکاری ٹوئٹر ہینڈل پر اس حوالے سے ایک ٹویٹ میں آزاد کشمیر ہی لکھا۔

ان کی ایک ٹویٹ کچھ اس طرح تھی، "قائد اعظم میموریل ڈاک بنگلہ پاکستان کی ثقافتی اور تاریخی دولت کی علامت ہے اور سن 1944 میں خود محمد علی جناح نے اس کا دورہ کیا تھا۔ میرے لیے آزاد جموں و کشمیر کے دورے پر آنا ایک اعزاز کی بات ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری 75 برس کی شراکت کے دوران، امریکہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے، خاص طور پر اس وقت جب اسے سب سے زیادہ ضرورت رہی ہے۔"

خطہ جموں و کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور دونوں ہی اس پر اپنا اپنا دعوی کرتے رہے ہیں، جبکہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک بڑا حلقہ اپنی آزادی کا مطالبہ کرتا رہا ہے، جہاں بھارتی حکومت نے سخت ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

اسی لیے امریکی سفیر کے اس بیان کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے کئی حلقوں میں کافی بحث ہوتی رہی ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ کون کہاں پر کھڑا ہے۔

کشمیر: خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ، تین سال میں کیا کچھ بدلا

05:04

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں