امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ پابندیوں کے حق میں فیصلہ دے دیا
عاطف توقیر
5 دسمبر 2017
امریکی سپریم کورٹ نے پیر کے روز ٹرمپ انتظامیہ کو چھ مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکی میں داخلے سے متعلق حکم نامے پر فوری اور مکمل عمل درآمد کی اجازت دے دی ہے۔
اشتہار
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برسراقتدار آنے کے بعد چھ مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کا انتظامی حکم نامہ جاری کیا تھا، تاہم اسے متعدد نچلی عدالتوں کی جانب سے کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ اس بابت بعد میں صدر ٹرمپ نے نظرثانی شدہ حکم جاری کیا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے عبوری عمل درآمد کی اجازت دی تھی، تاہم پیر کے روز امریکی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس حکم نامے کے خلاف دائر اپیلوں کے فیصلے تک اس پر مکمل اور فوری عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔
ستمبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ تیسرے ورژن کو رِچمونڈ، ورجینیا اور سان فرانسسکو کی عدالتوں میں چیلنج کیا گیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس حکم نامے میں خصوصاﹰ مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا ہے، جو امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے اور اس سے ملکی سلامتی سے متعلق حکومتی دعووں کی بابت بھی کسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C. Barria
9 تصاویر1 | 9
ان اپیلوں نے نچلی عدالتوں کو تو اپنے موقف پر رضامند کر لیا، تاہم سپریم کورٹ میں ٹرمپ انتظامیہ نے عدالت پر واضح کیا کہ امریکی قومی سلامتی اور دہشت گردانہ حملوں کے انسداد کے لیے اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ کے نو ججوں کی جیوری شامل تھی، جس نے دو کے مقابلے میں سات ووٹوں سے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر عمل درآمد کی اجازت دے دی۔
اس عدالتی فیصلے پر ردعمل میں وائٹ ہاؤس کی جانب سے کہا گیا ہے، ’’ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر حیرت نہیں ہے، جس میں دہشت گردی کے خطرات سے متعلق چند ممالک سے وابستہ خدشات کی بنا پر ان کے شہریوں کے امریکا میں داخلے کو محدود بنایا گیا ہے۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ کا مجوزہ دورہ برطانیہ نہیں ہونا چاہیے، ڈاکٹر سجاد کریم
02:10
وائٹ ہاؤس کے مطابق، ’’ملک کے حفاظت کے لیے یہ حکم نامہ نہایت ضروری ہے۔ ہم عدالتوں میں اس بابت جاری مقدمات میں اپنے موقف کا مکمل دفاع کریں گے۔‘‘
اس عدالتی فیصلے پر تاہم کونسل آن امیریکن اسلامک ریلیشن نے تنقید کی ہے۔ اس تنظیم کے مطابق، ’’اس فیصلے میں صدر ٹرمپ کے حکم نامے کی وجہ سے متعدد امریکی شہریوں اور ان کے خاندان کے لیے پیدا ہونے والی صورت حال کو نظرانداز کیا گیا ہے۔‘‘