1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی سپریم کورٹ کا ایل جی بی ٹی ورکرز کے حق میں اہم فیصلہ

16 جون 2020

امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرست اور ٹرانس جينڈر (ایل جی بی ٹی) ورکرز کو ہر قسم کے امتیازی سلوک سے تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

USA Gay Pride in New York
تصویر: picture-alliance/Zumapress/A. Lohr-Jones

امریکی سپریم کورٹ نے پیر کے روز اپنے ايک تاریخی فیصلے میں سن 1964 کے شہر ی حقوق کے قانون کی ایک اہم شق کا حوالہ دیتے ہوئے، جو آجرین کونسل، رنگ، قومیت اور مذہب کی بنیاد پر ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے سے روکتا ہے، ہم جنس پرستوں ا ور ٹرانس جينڈرز (ایل جی بی ٹی) کو ملازمت میں کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک سے تحفظ فراہم کرنے حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے تین کے مقابلے ميں چھ ووٹ سے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کسی شخص کے جنسی رجحان یا اس کی جنسی حیثیت کی بنیاد پر دفاتر اور ملازمت کے مقامات پر اس کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔

یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نامزد کردہ جسٹس نیل گورسوچ نے تحریر کیا جب کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس اور چار دیگر لبرل ججوں نے بھی گورسوچ کی رائے کی تائید کی۔ جسٹس نیل گورسوچ کو سن 2017 میں سپریم کورٹ کا جج مقرر کيا گيا تھا۔ وہ سن 1991میں کلیئرنس تھامس کے بعد سپریم کورٹ کے نامزد کردہ سب سے کم عمر جج ہیں۔

خیال رہے کہ امریکا میں دفاتر میں ایل جی بی ٹی ورکرز کے ساتھ تعصب کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ملک کی 28 ریاستوں میں ایل جی بی ٹی ورکز کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف جامع اقدامات سے متعلق قوانین نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وفاقی قانون کے طور پر اب ایل جی بی ٹی ورکرز کو ملک بھر میں تحفظ حاصل ہو جائے گا۔

واضح رہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے سن 2015 میں ملک بھر میں ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت دیتے ہوئے اسے ایک قانونی حق قرار دے دیا تھا۔امریکا کی 36 ریاستوں میں پہلے ہی ہم جنس پرست جوڑوں کو شادی کی اجازت حاصل تھی اور عدالتی فیصلے کے بعد باقی 14 ریاستوں کو اس پر عائد پابندی ختم کرنی پڑی۔ اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے سن 2015 میں عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ’مساوات کی جانب ایک بڑا قدم‘ قرار دیا تھا۔

ج ا / ع س (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں