امریکی سپریم کورٹ کے سینیئر جج کا ریٹائرمنٹ کا فیصلہ
28 جون 2018
امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس انتھونی کینیڈی رواں برس اکتیس جولائی کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ امریکی صدر ان کی جگہ پر کسی قدامت پسند رویے کے حامل جج کو نامزد کریں گے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Balce Ceneta
اشتہار
امریکی عدالتِ عظمیٰ کے سینیئر جج جسٹس انتھونی کینیڈی نے امریکی صدر کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ وہ اکتیس جولائی کو اپنے منصب سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ اُن کی عمر تقریباً بیاسی برس ہے۔
اُن کو سن 1988 میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر رونالڈ ریگن نے سپریم کورٹ کا جج نامزد کیا تھا۔ وہ چالیس برس سے زائد عرصے تک امریکی عدالتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔ اس میں تیس سال تک وہ سپریم کورٹ میں بطور جج فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔
جسٹس انتھونی کینیڈی نے اعلیٰ عدالت کے جج کے طور پر ہم جنس پرستوں کے حقوق کے حق میں تاریخی فیصلہ صادر کیا تھا۔ اسی طرح انہوں نے خواتین کے لیے اسقاطِ حمل کے حقوق کے حوالے سے بھی ایک اور اہم رولنگ دی تھی۔ کینیڈی کیلیفورنیا کی فیڈرل اپیلٹ کورٹ کے جج تھے جب انہیں سپریم کورٹ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
ٹرمپ کے نامزد کردہ جج نیل گورسچ بطور سپریم کورٹ جج حلف اٹھاتے ہوئے، یہ حلف ریٹائر ہونے والے جسٹس کینیڈی نے لیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
جسٹس کینیڈی نے سیاسی اخراجات لیے عائد پابندی کو بھی ختم کرنے کا حکم سنایا تھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق جسٹس کینیڈی کے کئی فیصلوں نے امریکی معاشرت پر دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔ وہ روایتی قدامت پسند حلقے کی نمائندگی ضرور کرتے تھے لیکن ان کے بعض فیصلے قدامت پسندوں کی توقعات کے برعکس بھی رہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جسٹس کینیڈی کو پرزور الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ایک مدبر اور شاندار جج قرار دیا۔ اس تناظر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پہلے سے مرتب کردہ ججوں کی فہرست سے سپریم کورٹ کی نامزدگی کریں گے۔
یہ فہرست اُن کی انتخابی مہم کے دوران اُن کے قانونی ماہرین نے مرتب کی تھی۔ ٹرمپ منصبِ صدارت سنبھالنے کے لیے سپریم کورٹ کے دوسرے جج کی نامزدگی کریں گے۔ ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے لیے ایک جج کی نامزدگی گزشتہ برس کی تھی۔ اُن کے نامزد کردہ جسٹس نیل گورسچ اس وقت امریکی سپریم کورٹ کا حصہ ہیں۔
ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے لیے ایک مرتبہ پھر کسی جج کی نامزدگی اُن کے لیے باعث اعزاز ہے کیونکہ وہ امید کرتے ہیں کہ اُن کا نامزد کردہ جج اگلے چالیس یا پینتالیس برس تک انصاف کی کرسی پر براجمان رہے گا بالکل ایسے ہی جیسے جج کنیڈی نے اپنے منصب پر چالیس برس گزارے ہیں۔
امریکی سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد نو ہوتی ہے اور موجودہ تعداد میں چار بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں اور بقیہ پانچ قدامت پسند ہیں۔
بیدخل کیے جانے والے میکسیکن کی واپسی لیکن نئی شروعات کیسے
امریکی صدر کے حکم پر غیرقانونی میکسیکن مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی واپس بھیجے جانے والے مہاجرین نصف سے زائد زندگی امریکا میں بسر کر چکے ہیں۔ ہر ہفتے ایسے مہاجرین کے تین ہوائی جہاز میکسیکو سٹی پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Blackwell
ایک تلخ واپسی
امریکا میں مقیم غیرقانونی مہاجرین کو میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر پہنچایا جاتا ہے۔ ان کو ہتھکڑیاں پہنا کر ہوائی جہاز پر سوار کرایا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کے اترنے سے بیس منٹ قبل یہ ہتھکڑیاں کھول دی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
غیرقانونی اجنبی
جورج نینو کو اُس وقت پتہ چلا کہ وہ امریکا میں ایک غیرقانونی مہاجر ہے، جب اُس کی عمر اٹھارہ برس کی ہوئی۔ اُسے حکام نے سوشل سکیورٹی نمبر دینے سے انکار کر دیا۔ جورج کے والدین اُسے کم عمری میں امریکا لائے تھے۔ بچپن سے امریکا میں زندگی بسر کرنے والا جورج پانچ برس قبل بیدخل کر کے میکسیکو پہنچا دیا گیا۔ وہ چونتیس برس امریکا میں رہا۔ اُس کے چار بچے جو سابقہ بیوی کے ساتھ امریکی شہر فریزنو میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک غیر ملک
ماریا ہیریرا ستائیس برس کی ہے، اُسے امریکی حکام نے رواں برس دس اپریل کو ڈی پورٹ کیا۔ وہ امریکا میں اپنے قیام میں توسیع کے لیے ویزے کا انتظار کر رہی تھی کہ گرفتار کر لی گئی۔ وہ تین برس کی عمر میں میکسیکو سے امریکا پہنچی تھی۔ اب امریکا کی طرح میکسیکو بھی اُس کے لیے اجنبی دیس ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی شروعات
ماریا کی جورج سے ملاقات ایک غیرسرکاری تنظیم نیو کومینزوس کے دفتر میں ہوئی تھی۔ یہ تنظیم غیر ملکیوں کی معاونت کرتی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اس سے بھی بےخبر تھے کہ ایک دن انہیں میکسیکو سٹی میں ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا ہو گی۔ امریکا میں ماریا کو گرفتاری کے بعد ڈیپرشن کا بھی سامنا رہا۔ اب وہ نئی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
گرفتاری اور ملک بدری
ڈیگو میگوئل کی عمر سینتیس برس ہے، اُس کو سابقہ گرل فرینڈ کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں سن 2003 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ میگوئل کو امریکی حکام نے سن 2016 میں ملک بدر کر دیا۔
تصویر: DW/S. Derks
ٹرمپ اور اُس کی دیوار
پانچ ملک بدر کیے گئے میکسیکن شہریوں کو حکومت نے مالی معاونت کی اور اب وہ چھپائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی تیار کردہ ٹی شرٹس اور بیگز پر ’ٹرمپ اور اُن کی دیوار‘ لکھا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
مددگار ہاتھ
ڈیگو کے پاس کوئی بہت بڑی تنخواہ والی نوکری نہیں لیکن اپنے محدود وسائل کے ساتھ وہ میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر ملک بدر کیے گئے ہم وطنوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ ایسے افراد کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ وہ بھی امریکا سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ اُسے میکسیکو میں اپنا جدا ہو جانے والا بیٹا بہت یاد آتا ہے، جو اُس کی سابقہ بیوی کے ساتھ امریکا ہی میں مقیم ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی ابتدا ہو گئی ہے
ڈینئل سونڈوان کو رواں برس فروری میں امریکا سے بیدخل کیا گیا۔ وہ بہت مطمئن ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امریکا میں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت کم سوچتا تھا کیونکہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل اُسے شناختی دستاویزات کی ضرورت تھی، جو اُس کے پاس نہیں تھیں لیکن اس بیدخلی کے بعد میکسیکو میں وہ ایک بہتر مستقبل تعمیر کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
اطمینان سے آبادکاری
ڈینئل سونڈوان ایک پرنٹ شاپ کے اوپر رہ رہا ہے۔ ایک پادری نے اُس کی ابتدائی رہائش کا بندوبست کیا تھا۔ وہ میکسیکو سٹی میں ایک پچھتر برس کی خاتون کے گھر پر دو ہفتے مقیم رہا۔ اب بیدخل کیے جانے والے افراد کی مقامی تنظیم ڈی پورٹاڈوس کے تعاون سے وہ ایک نئی رہائش گاہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
بیدخلی کا روشن پہلو
بہت سارے بیدخل کیے جانے والے اپنی ساری جمع پونجی امریکا میں ہی چھوڑ چکے ہیں۔ کئی ایسے افراد کہتے ہیں کہ جو چھن چکا ہے، وہ سب کچھ نہیں تھا۔ یہ لوگ اپنے ملک میں قانونی شہری ہیں اور وہ کسی خوف کے بغیر جی رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔